اتوار، 21 جولائی، 2013

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ مقدمة

اعتقاد أهل السنۃ في الصحابۃ
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ

تألیف
ڈاکٹر محمد بن عبد اللہ الوہیبی
ترجمہ
عبد ا لصبور بن عبدالنور الندوی
نظر ثانی
(مولانا)عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمة

انَّ الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستہدیہ، و نعوذ باللہ من شرور أنفسنا و سےئات أعمالنا، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضلل فلا ہادي لہ ، وأشہد أن لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، وأشہد أنّ محمدا عبدہ و رسولہ وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، وبعد:
صحابۂ کرامؓ کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ اور ان کی تاریخ کا مطالعہ مرکزی نقطۂ ارتکاز کی حیثیت رکھتا ہے، اور جب عقیدہ سے الگ ہو کر ان کی تاریخ پڑھی جائے گی تو اس میں انحراف اور فساد لازمی امر ہے۔
موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اہل سنت کی کتب عقائد واضح شکل میں اس مسئلہ کو پیش کرتی ہیں، نا ممکن ہے کہ ہم عقیدہ کے متعلق اہل سنت کی ان کتابوں میں سے کوئی کتاب اٹھائیں،اور اس میں عقیدہ کے مختلف پہلؤوں پر بحث کے علاوہ اس اہم موضوع پر بحث نہ کی گئی ہو(یعنی ہم ان کتابوں میں یہ بحث ضرور پائیں گے)، جیسے :[شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ] لللالکائی، [ السنۃ] لابن أبي عاصم، [السنۃ] لعبد اللہ بن أحمد بن حنبلؒ ،[ الابانۃ] لابن بطۃ، اور[ عقیدۃ أہل السلف أصحاب الحدیث] للصابوني وغیرہ ۔ بلکہ أئمہ سنت میں سے ہر امام جب اپنا عقیدہ ذکر کرتا ہے ،گر چہ وہ ایک ورق یا اس سے کم ہی میں کیوں نہ ہو،صحابہ کے موضوع کی طرف ضرور اشارہ کرتا ہے، چاہے ان کے مناقب کا ذکر ہو،یا خلفائے راشدین کے فضل و کمال کا بیان ہو، یا اُن کی عدالت کا۔علاوہ ازیں صحابۂ کرامؓ کو سب و شتم کرنے یا ان کے بارے میں طعن و تشنیع کی ممانعت کو بھی ذکر کرتاہے، اوراُن کے باہمی جھگڑوں پر خاموشی وتوقف اختیار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھئے: [شرح أصول اعتقاد أہل السنۃلللالکائی(ت ۴۱۸ھ) ۱۰؍۱۵۱۔اس کتاب میں مؤلف نے اہل سنت کے کبار أئمہ میں سے دس لوگوں کا عقیدہ بیان کیا ہے، جنھوں نے ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، جو میں نے ذکر کی ہیں، اس کتاب کی تحقیق ڈاکٹر أحمد سعد حمدان الغامدی نے کی ہے]
انہی وجوہات کی بناء پر میں نے ارادہ کیا کہ اپنی اس بحث میں اس اعتقاد کو اس کے مختلف پہلؤوں سمیت نمایاں کردوں اورصحابہ کی تاریخ کے مطالعہ کے وقت اس کے چھوڑ دینے پر پیدا ہونے والے خطرات کو واضح کردوں۔لہٰذا یہ بحث اعتقادی پہلو کو نمایاں کرتی ہے، البتہ کہیں ضرورت کے وقت دوسرے پہلؤوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جیسے’ صحابہ کو گالی دینے کا حکم‘ اور’تاریخ صحابہ سے متعلق روایات کی تحقیق کی ضرورت‘ وغیرہ۔
صحابہؓ کے احوال کا جائزہ لینے کے لئے اس بحث کو میں ایک اہم آغازسمجھتا ہوں جس کی مختلف فرقوں اور ان کے نظریات سے متعلق کام کرنے والے محققین و مؤرخین کونیز کسی بھی صحابی کی سیرت وغیرہ کا مطالعہ کرنے والے کو ضرورت ہے۔
میں نے اس کتاب کو مندرجہ ذیل مباحث میں تقسیم کیا ہے:
اول: قرآن و سنت سے عدالت صحابہؓ کے متعلق دلائل۔جس میں میں نے اُن آیات و صحیح احادیث کا انتخاب کیا ہے جو اس پر واضح طور سے دلالت کرتی ہے ساتھ ہی بعض أئمہ کی تعلیقات نقل کی ہیں۔
دوم: صحبت ورفاقت کا مقام و مرتبہ، جس کے برابر کوئی شیء نہیں ہوسکتی، صحابہ کے بعد آنے والوں پر صحابہؓ کی کیا فضیلت ہے، اس کو بھی بیان کیا ہوں۔
سوم: صحابہؓ کو گالی دینے کی قسمیں اور ہر قسم کا حکم۔ یہاں میں نے وہ گالی جو ان کی عدالت میں طعن ہے اور دوسری گالیوں کے فرق کو واضح کیا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایسے صحابی کو گالی دے جس کی فضلیت میں متواتر نصوص وارد ہیں اور دوسرے صحابہؓ یا تمام صحابہؓ یا چند صحابہؓ کو گالی کا نشانہ بنائے ان سب کے ما بین فرق واضح کیا ہے، اور اس مبحث کے اخیر میں أم المؤمنین عائشہ ؓ کواس چیزسے متہم کرنے والے کے حکم کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے اللہ نے ان کو بری قرار دیا ہے، اور بقیہ اُمہات المؤمنین کو گالی دینے کا حکم اشارتا ذکر کیا ہے۔
چہارم: میں نے اس مبحث میں گالی اور گالی کے لوزمات سے پڑنے والے اثرات ونتائج پر بحث کی ہے۔
پنجم: صحابہؓ کے درمیان اختلافات سے متعلق ہمارا موقف کیا ہونا چاہےئے؟ اس میں بعض بنیادی امور اور ایسے پہلؤوں کو واضح کیا ہے جن پر مطالعہ کرنے والا صحابہؓ کے اختلافی موضوعات کو پڑھتے وقت توجہ دے، تا کہ وہ انہیں گالی دینے کا ارتکاب نہ کرے۔
محترم قاری! مجھے اس کا دعویٰ نہیں کہ نئی چیزیں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں، بلکہ یہاں میں نے ائمہ کرام کے چنندہ اقوال کو ایک معین ترتیب پر ایک خاص مقصد کے تحت جمع کر دیا ہے، اور وہ ہے: صحابہؓ کے متعلق عقیدۂ اہل سنت کی اہمیت کو اجاگر کرنا، اور اس کے منافی تنقیص کی تمام اقسام سے لوگوں کو خبردار کرنا، لہٰذا یہ کوشش اُن کوششوں کے ساتھ ضم ہے جو اس میدان میں مسلک سلف سے انتساب رکھنے والوں نے تحریر کی ہیں ، خواہ وہ عقیدہ کے باب میں ہو یا فِرَق کے یا حدیث کے یا تاریخ کے یا اس کے علاوہ۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ ہمارے دلوں کو حُبّ صحابہؓ سے معمور کر دے اور ہمارا حشر انہی کے ساتھ فرمائے، نیز ہم اللہ سے توفیق اور ثبات کے طلبگار ہیں ۔ وصلی اللہ وسلم وبارک علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ و صحبہ أجمعین۔
محمد بن عبد اللہ الوہیبي
الریاض، ص.ب: ۸۵۵۴۲

عدالت صحابہ کے کتاب و سنت سے دلائل

عدالت صحابہ کے کتاب و سنت سے دلائل
اہل سنت کے نزدیک صحابہ کی عدالت عقیدہ کے قطعی مسائل میں سے یا دین کی قطعیت کے ساتھ معلوم امور میں سے ہے ، اور وہ اس پر قرآن و سنت کی بہت سی دلیلوں سے حجت پکڑ تے ہیں۔
اوّل:قرآن کریم سے دلائل 
پہلی آیت: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (لقد رضي اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبہم فأ نزل السکینۃ علیہم وأثٰبہم فتحا قریبا)(الفتح: ۱۸) یقیناًاللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہوگیاجب کہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کر لیا، اور ان پر اطمینان نازل فرمایااور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس (بیعت رضوان) کے موقع پر ہماری تعداد ۱۴۰۰؍ تھی۔(بخاری۔حدیث نمبر:۴۱۵۴، فتح الباری:۷؍۵۰۷)
یہ آیت واضح طور پہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے ان کے تزکیہء نفس کی شہادت خود دی، ایسا تزکیہ جو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا، ان کے دلوں اور نہاں خانوں کی طہارت اور پاکیزگی کی اس سے بہتر گواہی اور کیا ہوسکتی ہے!رضی اللہ عنہم۔ (جس سے اللہ راضی ہوجائے اس کی موت کفر پر ہو ہی نہیں سکتی، اس لئے کہ اللہ کی رضا اُسی کے لئے ہوتی ہے جس کے بارے میں اُسے پتہ ہے کہ اس بندہ کی موت اسلام پر ہوگی۔الصواعق المحرقۃ: ۳۱۶)
اس کی مزید توثیق صحیح مسلم میں وارد اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لا یدخل النار ان شاء اللہ من أصحاب الشجرۃ أحد، الذین بایعوا تحتہا(حدیث نمبر: ۲۴۹۶) ان شاء اللہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ کی رضا صفت قدیم ہے، اور اللہ اُسی بندے سے راضی ہوتا ہے جس کے بارے میں علم ہوتا ہے، کہ یہ بندہ رضا کی ساریِ شرطیں پوری کردے گا، اور اللہ جس سے راضی ہوجائے اُس سے کبھی ناراض نہیں ہوگا، سو اللہ جس کے بارے میں خبر دے دے کہ اُس سے راضی ہے ،تو وہ جنتی ہے، اگرچہ اللہ کی رضا بندہ کے ایمان اور عمل صالح کے بعد حصے میں آئی ہو۔تو ایسے لوگوں کا ذکر بطور مدح وثناء ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ یہ جانتا ہے کہ بندہ عمل صالح کے بعد ایسے اعمال کرے گا جس سے وہ ناراض ہوگا تو وہ اس زمرہ میں شامل نہیں ہوسکتا۔(الصارم المسلول:ص:۵۷۳)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتلادیا ہے کہ وہ صحابہ کے دلوں کو اچھی طرح جانتا ہے، وہ اُن سے راضی ہوا، اور اُن پر سکینت نازل کی، اس لئے اب کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ صحابیت کے معاملے میں بحث و مباحثہ کرے، یہاں ادنیٰ سا شک بھی حرام ہے‘(الفصل فی الملل و النحل: ۴؍۱۴۸)
دوسری آیت: (محمد رَّسول اللہ والذین معہ أشدآء علی الکفار ، رحمآء بینہم، تراہم رُکعا سجدایبتغون فضلا من اللہ و رضوانا، سیماہم في وجوہہم من اثر السجود ، ذٰلک مثلہم في التوراۃ و مثلہم في الانجیل، کزرع أخرج شطأہ ، فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سوقہ یعجب الزُّرّاع ،لیغیظ بہم الکفار ، وعدَ اللہ الذین اٰ منوا وعملوا الصّٰلحٰت منہم مغفرۃ واجرا عظیما)(الفتح: ۲۹) محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں،تو انہیں دیکھئے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی تلاش میں ہیں، اُن کے چہروں پر ان کا نشان سجدوں کے اثر سے ہے،ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، اُس کھیتی کے مثل جس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اُسے مضبوط کیا،اور وہ موٹا ہوگیا،اور کسانوں کو خوش کرنے لگا، تا کہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، اللہ تعالیٰ نے اُن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے بخشش اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ 
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’مجھے یہ خبر پہنچی کہ جب صحابۂ کرام نے ملک شام فتح کیا، تو عیسائی انہیں دیکھ کر کہنے لگے:’اللہ کی قسم! عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں سے متعلق جو صفات ہمیں پہنچی ہیں، اُن سے یہ لوگ بہتر ہیں‘‘۔ یہ ہے سچی گواہی!اس امت کی عظمت شان کا ذکر سابقہ آسمانی کتابوں میں ہوا ہے اور امت کے افضل ترین اشخاص اصحاب رسولﷺ ہیں۔ اللہ کا فرمان دیکھئے: ذٰلک مثلہم في التوراۃ و مثلہم في الانجیل، کزرع أخرج شطأہ ، فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سوقہ یعجب الزُّرّاع ، (ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، اُس کھیتی کے مثل جس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اُسے مضبوط کیا،اور وہ موٹا ہوگیا،اور کسانوں کو خوش کرنے لگا) اسی طرح صحابۂ کرام نے اپنے وجود سے نبیﷺ کوتوانائی عطا کی، ہر موقع پر آپ ﷺ کی مدد کی،ہر موڑ پر اسلام کو تقویت بخشی، اور نبیﷺ کی مثال کسانوں کے ساتھ اس پودے کی تھی جو دانہ پھاڑ کر باہر نکل رہا تھا، صحابۂ کرام کی بڑھتی ہوئی قوت و شوکت اور اثر ونفوذ کافروں کو غضبناک کررہی تھی۔(الاستیعاب لابن عبد البر۱؍۶) ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ جمہور کے نزدیک یہ تمام صحابہ کا وصف ہے‘‘ (زاد المسیر ۴؍۲۰۴)
تیسری آیت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیا رہم ) الیٰ قولہ تعالیٰ (والذین جآءُ و من بعدہم یقولون ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذین آمنوا، ربنا انک رءُ وف رحیم) (الحشر: ۸۔۱۰)ترجمہ: (مال فئی )اُن مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئے گئے ہیں،وہ اللہ کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہیں، اللہ ا ور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی راست باز لوگ ہیں۔اور (اُن کیلئے) جنہوں نے اس گھر میں(یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے، اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اُس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خوداپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو،(بات یہ ہے)کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیاوہی کامیاب ہے۔ اور (اُن کے لئے)جو اُن کے بعد آئیں جو کہیں گے :اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے،اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب!بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ بالا آیات میں مال فئے کے مستحقین کی صفات بیان کر رہا ہے، ان کی تین قسمیں ہیں: (۱)للفقراء المہاجرینمہاجر فقراء۔ (۲)والذین تبوَّءُ والدار والایمان من قبلہماور (اُن کیلئے) جنہوں نے اس گھر میں(یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے(انصار مدینہ)۔(۳) والذین جآءُ و من بعدہم اور (اُن کے لئے)جو اُن کے بعد آئیں (یعنی صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اہل ایمان)۔
اس آیت سے امام مالک رحمہ اللہ کا نرالا استدلال دیکھئے: ’جو صحابہ کو گالی دے ،اس کے لئے مال فئے میں کوئی حصہ نہیں،اللہ نے جن کی تعریف بیان کی ہے وہ اُن پر صادق نہیں آتی، وہ اپنے سابقین کے لئے مغفرت طلب نہیں کرتے جیسا کہ آیت میں وارد ہے:
(ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان)۔
سعد بن أبی وقاصؓ کا قول ہے: ’’لوگ تین زمروں میں منقسم ہیں، دوزمرے پُر ہو چکے ہیں، تیسرا باقی ہے، اور بہتر ہوگا کہ تم اپنے کو تیسرے زمرے میں شامل کرلو، پھر یہ آیتیں پڑھیں: للفقراء المہاجرین یہ زمرہ پُر ہوچکا ہے، والذین تبوَّءُ وا الدَّارَ والایمانَ من قبلہم اس سے انصار مراد ہیں، اور یہ دوسرا زمرہ بھی پُر ہوچکا ہے، والذین جآءُ و من بعدہم یہ زمرہ باقی ہے، اور اس میں شامل ہونے کی شکل یہ ہے کہ تم اُن (صحابہؓ) کے لئے مغفرت کی دعا کرو‘‘(الصارم المسلول:ص:۵۷۷ورواہ الحاکم وصححہ۲؍۴۸۴)
اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اصحاب رسولﷺ کے لئے مغفرت طلب کریں، تو لوگوں نے انہیں گالیاں دیں(رواہ مسلم۔کتاب التفسیر۔۲۲؍۳)
ابو نعیم کہتے ہیں: اُس سے بدتر کون ہوگا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتا ہے، اُن کی نافرمانی اور سرکشی پر آمادہ رہتا ہے ! کیا اُسے خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لیں،ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور نرمی سے پیش آئیں، اللہ کا فرمان ہے: (ولو کنتَ فظا غلیظ القلب لانفضوامن حولک فاعف عنہم واستغفر لہم وشاورہم في الأمر)(آل عمران:۱۵۹) اگر آپﷺ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، اس لئے آپﷺ ان کے ساتھ عفو کا معاملہ کریں، ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں، اور معاملات میں اُن سے مشورہ کرتے رہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: (واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین) (الشعراء:۲۱۵)جو ایمان لائیں اور آپ کی تابعداری کریں اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ تو جو صحابہؓ کو گالی دے، اُن سے بغض و عناد رکھے، ان کے بعض اجتہادات اور باہمی جنگوں کی(محض بدنام کرنے کیلئے) غلط تعبیر کرے۔ ایسا شخص اللہ کے احکامات اور وصیتوں سے کھلواڑ کرتا ہے، وہ نبیﷺ، صحابہؓ اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں بد زبانی کر کے اپنی بد باطنی کا اظہار کرتا ہے‘‘(الامامۃ لأبی نعیم،ص:۳۷۵)
تابعی مجاہدؒ ، ابن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: محمدﷺ کے صحابہ کو گالی مت دو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے استغفار کا حکم دیا ہے، اور اللہ جانتا تھا کہ یہ باہم دست و گریباں ہوں گے(الصارم المسلول:۵۷۴)
چوتھی آیت: اللہ تعالیٰ کا قول: (والسابقون الأوَّلون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ و أعدَّ لہم جنات تجري تحتہا الأنہار خالدین فیہا أبدا، ذٰلک الفوز العظیم)(التوبۃ: ۱۰۰) ترجمہ:اور جومہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں، اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ اُن سب سے راضی ہوا،اور وہ سب اس سے راضی ہوئے،اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ 
امام ابن تیمیہؓ نے لکھا ہے:’’اللہ تعالیٰ سابقین سے بغیر احسان کی شرط کے راضی ہو،اور ان کے پیرو کاروں سے اُسی وقت راضی ہوگا جب وہ اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کریں گے‘‘(الصارم المسلول:۵۷۲)۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو تو خلوص نیت کے ساتھ صحابہؓ کی اتباع کریں اور ان کے لئے استغفار کریں۔
پانچویں آیت:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (لا یستوی منکم من أنفق من قبل الفتح وقاتل،اُو لٰءٓک أعظم درجۃ من الذین أنفقوا من بعدُ و قاتلوا، وکُلا وعد اللہ الحسنیٰ)(الحدید: ۱۰) ترجمہ: تم میں سے جن لوگوں نے فتح(مکہ) سے پہلے فی سبیل اللہ خرچ کیا ہے اور قتال کیا ہے، وہ (دوسروں)کے برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں،جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیا،ہاں! بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے۔ تابعی مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں: الحسنیٰ سے مراد جنت ہے(تفسیر ابن جریر: ۲۷؍۱۲۸)۔
علامہ ابن حزمؓ نے اس آیت سے قطعی استدلال کیا ہے کہ تمام صحابہؓ جنتی ہیں،(وکُلا وعد اللہ الحسنیٰ)۔
چھٹی آیت:(لقد تّاب اللہ علی النبي والمہاجرین والأنصار الذین اتبعوہ في ساعۃ العُسرۃ من بعد ما کاد ےَزیغ قُلوبُ فریق منہم ثمَّ تاب علیہم انَّہ بہم رءُ وف رحیم)(التوبہ: ۱۱۷) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی۔جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا،اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی، بلا شبہ اللہ تعالی ان سب پر بہت ہی شفیق ومہربان ہے۔ غزوۂ تبوک میں خواتین اور بوڑھے معذور وں کے علاوہ تمام صحابہؓ شریک ہوئے تھے، تین صحابی پیچھے رہ گئے تھے ، بعدمیں ان کی توبہ اللہ نے قبول کی اور آیت نازل فرمائی۔ 
دوم: سنت سے دلائل
پہلی حدیث: عن أبی سعید ،قال: کان بین خالد بن الولید وبین عبد الرحمٰن بن عوف شيء،فسبہ خالد، فقال رسول اللہ ﷺ :’’ لاتسبوا أحدا من أصحابيفانّ أحدکم لو أنفق مثل أحد ذھبا ما أدرک مُدّ أحدہم ولا نصیفہ(رواہ البخاری ۳۶۷۳، و مسلم ۲۵۴۱)ترجمہ:ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف کے ما بین کچھ بات ہوگئی تھی، جس پر خالد بن ولید نے انہیں بُرا بھلا کہہ دیا، اللہ کے نبیﷺ یہ سُن کر انہیں ڈانٹا:’’میرے کسی بھی ساتھی کو گالی مت دو،اگر تم میں سے کوئی اُحد(پہاڑ) کے برابربھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے تب بھی ان کے ایک یا آدھے مُدکے برابر نہیں پہنچ سکتا۔ 
علامہ ابن تیمیہ الصارم المسلول میں لکھتے ہیں: ’’اسی طرح امام أحمدؒ نے بھی کہا ہے: جس کسی نے نبی ﷺ کی صحبت بحالت ایمان ایک سال، ایک مہینہ، ایک دن اختیار کی ہو، یا ایمان کی حالت میں محض دیکھا ہو، وہ صحابی ہے‘‘۔
ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ نبیﷺ نے خالد بن ولید کو کیوں منع کیا کہ وہ صحابہؓ کو گالی نہ دیں،جب کہ خالد بھی صحابی ہیں۔ اور فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اُحد(پہاڑ) کے برابربھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے تب بھی ان کے ایک یا آدھے مُدکے برابر نہیں پہنچ سکتا؟ اس کا جواب ہے: کہ عبد الرحمٰن بن عوفؓ سابقین اولین میں سے ہیں، اور ایسے وقت میں یہ آپﷺ کے ساتھ تھے جب خالد بن ولید مسلمانوں کے دشمن تھے۔ عبد الرحمٰن بن عوف اور اُن کے ساتھیوں نے صلح حدیبیہ سے قبل خوب مال خرچ کیا اورلڑائیوں میں دل وجان سے شریک ہوئے، اور اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ کیا،خالد بن ولید اور ان کے ساتھی صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لانے کے سبب عبد الرحمن بن عوف کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے، اسی لئے اللہ کے نبیﷺ نے سابقین کو بُرا بھلا کہنے سے روک دیا تھا۔خالد بن ولیدؓ کی نسبت سابقین کی طرف ایسے ہی ہے جیسے شرف صحبت سے محروم شخص کی نسبت صحابیت کا اعزاز حاصل کرنے والے شخص سے، بلکہ کچھ زیادہ ہی۔(الصارم المسلول: ۵۷۶)
دوسری حدیث: اللہ کے رسول ﷺ نے عمر فاروقؓ سے فرمایا: وما یدریک ، لعل اللہ اطلع علیٰ أھل بدر، فقال: اعملواما شئتم فقد غفرت لکم(رواہ البخاری ومسلم) تمہیں کیا معلوم ! اللہ تعالیٰ بدری صحابہ پر نوازشیں کرتا ہے،کہتا ہے: جاؤ، جو من میں آئے کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ (اعملوا) امر کا صیغہ تکریم کے لئے وارد ہوا ہے، اور اس سے مراد ہے،کہ بدری صحابہ جو بھی عمل کریں ، ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگااس لئے کہ اللہ نے اُن سے سچا وعدہ کر لیا ہے۔ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اُن کے بُرے اعمال بخشے بخشائے ہیں، گویا ان سے سرزد ہی نہیں ہوئے(معرفۃ الخصال المکفرۃلابن حجر:۳۱)
امام نوویؒ کا کہنا ہے:’علماء کہتے ہیں کہ مغفرت سے مراد اُخروی مغفرت ہے، اگر دنیا میں ان پر حد واجب ہوجائے تو اُن پر نافذ کیا جائے گا،قاضی عیاض نے حد کی نفاذ پر اجماع قرار دیا ہے۔عمرؓ نے قدامہ بن مظعونؓاور دوسرے بدری صحابہ پر حد نافذ کی، نبیﷺ نے مسطحؓ پر کوڑے برسائے جب کہ وہ بدری صحابی ہیں‘۔(مسلم مع شرح النووی۱۶؍۵۶) 
علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں: ’’واللہ أعلم! یہ خطاب ایک ایسی قوم کے لئے ہے جس کے بارے میں اللہ جانتا تھا کہ یہ اپنے دین سے ہرگز نہ پھریں گے،اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوگا،ا ن سے گناہ سر زد ہونگے،لیکن اس پر اصرار نہیں ہوگا، بلکہ انہیں توبۂ نصوح کی توفیق میسر ہوگی، ان کے استغفار اور نیکیاں گناہوں کو مٹا دیں گی،اور یہ خصوصیت صرف انہی کو حاصل ہے،جس کی بنا پر انہیں مغفرت کا پروانہ حاصل ہوا۔مغفرت کئی اسباب کی بناء پر اُن کے حصہ میں آئی، اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ مغفرت پر بھروسہ کر کے فرائض چھوڑ بیٹھتے، یہ پروانہ فرائض وواجبات کی پیہم ادائیگی پر ملا، پروانۂ مغفرت ملنے کے بعد یہ کہنا محال ہوگا کہ انہیں صوم و صلاۃ، روزہ وحج اور زکاۃ و جہاد کی ضرورت نہیں رہی‘۔
(الفوائد لابن القیم:۱۹)
تیسری حدیث: عن عمران بن الحصینؓ قال، قال رسول اللہﷺ: خیر أمتي قرني ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، قال عمران:فلا أدري، أذکر بعد قرنہ قرنین أو ثلاثا۔ (متفق علیہ) ترجمہ:عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:میری امت کا بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اُس کے بعد آنے والوں کا ہے، پھر اُس کے بعد آنے والوں کا ہے۔راوی حدیث عمرانؓ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو یا تین زمانوں کا ذکر کیا۔
چوتھی حدیث: عن أبی موسیٰ الأشعريؓأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: النجوم أمنۃ للسماء فاذا ذہبت النجوم أتی أہل السماء ما یوعدون، وأنا أمنۃ لأصحابي، فاذا ذہبتُ أنا أتی أصحابيما یوعدون، وأصحابيأمنۃ لأمتي، فاذا ذہب أصحابي أتی أمتيما یوعدون(رواہ مسلم۲۵۳۱) ترجمہ: ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ستارے آسمان کے امین و محافظ ہیں ، جب یہ ستارے(بشمول شمس وقمر)لپیٹ دئے جائیں گے تو آسمان والوں کو وعدہ کے مطابق(قیامت کا)سامنا ہوگا،میں اپنے صحابہؓ کے لئے امین ونگہبان ہوں،جب میں رخصت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہؓ پر وہ چیزیں(اختلافات،فتنے اور آزمائشیں)آئیں گی جن کا ان سے وعدہ کیاگیا ہے، اور جب میرے صحابہؓ نہیں ہونگے تو امت کو وعدہ کے مطابق اُمور درپیش ہونگے(یعنی :مصائب ، مشکلات، شرور و فتن، بدعات و خرافات وغیرہ)۔
پانچویں حدیث: عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ أنّ رسول اللہ ﷺ قال: أکرموا أصحابي فانہم خیارکم (أحمد، نساءي) وفي رواےۃ أخریٰ: احفظوني في أصحابي(ابن ماجہ۲؍۶۴) عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہؓ کی عزت کرو اس لئے کہ وہ تم میں سب سے اچھے ہیں۔ دوسری روایت میں وارد ہے: میری (سنت کی) حفاظت کے لئے میرے صحابہ کو دیکھو(میرے اصحاب کے حوالے سے مجھے بچائے رکھنا)۔
چھٹی حدیث: عن واثلۃؓ یرفعہ : لا تزالون بخیر ما دام فیکم من رأی من رآنيوصحبني، واللہ لا تزالون بخیر ما دام فیکم من رأی من رآنيوصاحبني(ابن أبي شیبۃ ۱۲؍۱۷۸) واثلہؓ اللہ کے نبیﷺ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں: تم اُس وقت تک بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان وہ لوگ ہونگے جنہوں(تابعی) نے میرے صحابہؓ کو دیکھا اور انہوں نے مجھے دیکھا اور میری صحبت اختیار کی، خدا کی قسم! تم لوگ اُس وقت تک برابر بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان صحابہ کو دیکھنے والے لوگ موجود ہونگے، اور صحابہؓ نے مجھے دیکھا اور میری مصاحبت اختیار کی۔
ساتویں حدیث: عن أنسؓ عن رسول اللہ ﷺ : آےۃ الایمان حب الأنصار ، وآےۃ النفاق بغض الأنصار (بخاري ۷؍۱۱۳، مسلم ۱؍۸۵) وقال في الأنصار کذٰلک لا یحبہم الا مؤمن، ولا یبغضہم الا منافق (بخاري ۷؍۱۱۳، مسلم ۱؍۸۵ بروایت بَراءؓ) انسؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بغض و عناد منافق کی نشانی ہے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جواجمالا ان کی فضیلت میں وارد ہیں، تفصیلی احادیث بہت زیادہ ہیں، امام أحمد بن حنبلؒ نے اپنی کتاب ’’فضائل الصحابہ‘‘ (دو جلدوں میں) میں دو ہزار سے زیادہ احادیث و آثار جمع کئے ہیں، اپنے موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے، اس کی تحقیق جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے پروفیسر ڈاکٹر وصی اللہ عباس نے کی ہے۔اور وہیں سے۱۴۰۳ھ میں شائع ہوئی ہے۔
خلاصۂ مبحث
گزشتہ صفحات میں صحابۂ کرام کے مناقب وفضائل کے متعلق جو آیات و احادیث ذکر کی گئی ہیں، ان کا خلا صہ پیش کیا جا رہا ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے ظاہر و باطن کا تزکیہ کر دیا ہے، ظاہر کی وضاحت میں ان کے بلند اخلاق حمیدہ کو بیان کیا ہے:جیسے: کفار پر شدید اور بھاری ہیں لیکن آپس میں رحم وکرم کا معاملہ کرتے ہیں(الفتح:۲۹)، اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور یہی سچے لوگ ہیں (الحشر:۸)، اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خوداپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو(الحشر:۹)۔ لیکن ان کے باطن کا معاملہ اللہ کے ساتھ خاص ہے، وہی تنہا دلوں کے بھید کو جانتا ہے ، صحابہ کا باطن کتنا سچا تھا، ان کی نیت کتنی نیک تھی، مثال کے طور پہ اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پرکھ لیا، اور ان پر سکینت ناز ل کی‘‘(الفتح: ۱۸)، اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں(الحشر:۹)، وہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں(الحشر:۹)، اللہ نے نبیﷺ، مہاجرین اور انصار جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں اپنے نبیﷺ کا ساتھ دیا(التوبہ:۱۱۷)، اللہ تعالیٰ نے ان کی سچی نیت اور توبہ کی بدولت ان کی مغفرت فرمادی، اور توبہ ‘ خالص قلبی عمل ہے۔
۲۔ ظاہری اور باطنی خیر کے حاملین صحابہ کرامؓ اللہ کی توفیق اسکی خوشنودی اور مغفرت کے مستحق ہوئے، اور اللہ نے اُن سے جنت کا وعدہ کیا۔
۳۔ صحابہؓ کی انہی فضیلتوں کے سبب اللہ نے ہمیں ان کے لئے مغفرت کا حکم دیا، اور رسول اکرم ﷺ نے ان کی تکریم، احترام ، ان کے حقوق کی حفاظت اور ان سے محبت کا حکم دیا، اور ہمیں ان کی شان میں گستاخی، بے ادبی اور گالی گلوچ سے روکا ہے۔بلکہ ان سے محبت کو ایمان کی علامت اور ان سے بغض کو نفاق کی نشانی قرار دیا ہے۔
۴۔ ان ساری صفات و دلائل کے مد نظراُن کا دور بہترین دور تھا، وہ امت کے امین تھے ، اور اس کے ساتھ امت پر ان کی اقتداء واجب ہے، بلکہ یہی واحد طریقہ ہے جنت کی طرف لے جانے کا: علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدي(أحمد ۴؍۱۲۶) تم پر میری سنت اور میرے بعد ہدایت یاب خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑے رہنا واجب ہے۔ 

صحبت رسول ﷺکا بے نظیرمقام

صحبت رسول  کا بے نظیرمقام
صحابۂ کرام کی تعظیم اور ان کی قدر و منزلت کی معرفت‘ کبار صحابہؓ کے نزدیک مسلم امر ہے، اگر صحابی نے محض چند لمحات ہی اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ گزارا ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ اپنی یاد داشت کے مطابق کہتے ہیں: میں نے محمد بن قدامۃ المروزی کی کتاب ’’أخبار الخوارج‘‘ میں یہ قصہ پڑھا: سند ذکر کر نے کے بعد ،نبیج العنزی بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدریؓ کے پاس بیٹھے تھے اور ابو سعید ٹیک لگائے ہوئے تھے،تو ہم نے علیؓ اور معاویہؓ کا ذکر چھیڑ دیا، ایک آدمی معاویہؓ کوغلط کہنے لگا، اتنے میں ابو سعید تن گئے اور تادیب کے لئے اپنا قصہ بیان کیاجس میں وہ اور ابو بکرؓ نیز ایک دیہاتی(بدو)رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، پھر ابو سعیدؓ نے کہا: ایک مرتبہ میں نے دیکھا اُسی بدو کو عمرؓفاروق نے بلوایا تھا اوراس کا قصور تھا، اس نے انصار کی ہجو بیان کی تھی ، عمرؓ نے مجلس میں لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: اس بدو کو اگر نبیﷺ کی صحبت نہ ملی ہوتی ، تو مجھے خود خبر نہیں کہ آج کیا ہوجاتا ، اور تم سب پر تنہا کافی ہوتا۔(الصارم المسلول: ۵۹۰) حافظ ابن حجرؒ نے کہا: اس قصہ کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
عمر فاروقؓ نے اُس بدو کو سزا دینا تو دور، اُس کی سرزنش بھی نہیں کی، صرف اس وجہ سے کہ اس نے اللہ کے نبیﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے، یہ واضح دلیل ہے کہ صحابہ کا خود عقیدہ تھا کہ شان صحبت کا کوئی بدل نہیں۔
وکیعؒ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوریؒ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کا قول ہے :(قُل الحمد للہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ) (النمل:۵۹) تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اُس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام ہے۔ انہوں نے کہا: کہ اس سے مراد محمد ﷺ کے صحابہؓ ہیں۔ تواس حسن انتخاب و اختیار کا تصور و ادراک مشکل امر ہے، یہ ایسامعاملہ ہے جہاں عقل کے گھوڑے بھی نہیں دوڑائے جا سکتے۔اور خواہ کسی کے اعمال کتنے ہی بڑھے ہوئے ہوں، صحابہ کی فضیلت کو نہیں پا سکتے، (اس لئے صحابہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کا موازنہ درست نہیں)۔
عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:’’ محمدﷺ کے ساتھیوں کو گالی مت دو، ان کے مقام کا حال یہ ہے کہ اُن کا تھوڑا سا نیک عمل تمہارے چالیس سال کی نیکیوں پر بھاری ہے‘‘ وکیعؒ کی روایت میں ہے:’’اُن کا معمولی عمل تمہارے عمر بھر کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔(أحمد۔فضائل الصحابۃ۱؍۵۷)
جمہور علماء کرام کا ماننا ہے کہ فضل صحابیت کے مقابل کسی کا کوئی عمل نہیں پہنچ سکتا، اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے نبیﷺ کو دیکھا ہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنہوں نے ابتداء میں نبیﷺ کی مدافعت کی، آپﷺ کی طرف ہجرت اور نصرت میں سبقت لے گئے ، یا جنہوں نے شریعت مطہرہ کو آپ ﷺ سے سیکھا اور سینے میں محفوظ کیااور اُسے آپﷺ کے بعد آنے والے لوگوں تک پہنچایا، تو ایسے صحابہؓ کا کوئی مد مقابل نہیں، کیونکہ اُن کے بتائے ہوئے طریقے پر لوگ چلتے رہے، اور لوگوں کے اس عمل کا ثواب انہیں بھی برابر ملتا رہا، جس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔(فتح الباری ۷؍۷)
امام أحمد بن حنبلؒ صحابہؓ کے متعلق عقیدے میں لکھتے ہیں: ادنیٰ صحابی افضل ہے اُس صدی کے لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو نہیں دیکھا،اگر چہ اُن لوگوں نے تمام أعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کی ہو۔(شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائی۱؍۱۶۰) امام نوویؒ کہتے ہیں: صحبت رسول ﷺ اگر چہ ایک لحظہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو، اس کی فضیلت کے برابرکوئی عمل نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اس مرتبہ تک کسی چیز کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے، اور فضائل کو قیاسا اختیار نہیں کیا جاتا، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرتا ہے۔(مسلم بشرح النووی: ۱۶؍۹۳)
اسی طرح اللہ عزوجل جو دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہے، اس نے صحابہؓ کے باطن کی طہارت اور تزکیہ بیان کردیا ہے ، جیسے اللہ کاقول: (فعلم ما في قلوبہم) اور ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکر: (لقد تّاب اللہ علی النبي والمہاجرین والأنصار) اور اللہ کی رضا وحصول خوشنودی کا بیان: (لقد رضي اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبہم فأ نزل السکینۃ علیہم وأثٰبہم فتحا قریبا) الخ ۔ یہ سب ان کی خصوصیت پہ دال ہیں، ان کے بعد آنے والوں کے لئے کہاں ایسی تزکیات ملیں گی؟
لیکن کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ’’بعض روایات اوپر ذکر کی گئی روایتوں کے خلاف ہیں جیسے نبیﷺ کا فرمان:( ابو ثعلبہؓ حدیث کے راوی ہیں):’’تأتي أیام للعامل فیہن أجر خمسین‘‘ قیل: منہم أو منا یا رسول اللہ؟ قال: ’’بل منہم‘‘ (ابوداؤد:۴۳۴۱، وصححہ الألباني)ایسا وقت آئے گا کہ ایک عمل کرنے والے کو ۵۰ لوگوں کے برابر اجر ملے گا، آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ وہ ۵۰ لوگ ہمارے برابرہونگے یا ہمارے علاوہ؟ آپ نے فرمایا:تم میں سے ۵۰ لوگوں کے برابر۔ 
اسی طرح ابو جمعہؓ روایت کرتے ہیں کہ أبو عبیدہؓ نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول!ہم آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام لائے، آپﷺ کے ساتھ جہاد کیا ، (کیا اس کے باوجود) ہم سے بہتر بھی کوئی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: قوم یکونون من بعدکم ےؤمنون بي ولم یرونی(أحمد:۴؍۱۰۶) تمہارے بعدایک ایسی قوم ہوگی جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائے گی۔
مذکورہ احادیث کے ما بین تطبیق کی مختلف وجہیں :
پہلی وجہ: حدیث( للعامل فیہن أجر خمسین) افضلیت پر دلالت نہیں کرتی، محض بعض اعمال پر اجر وثواب کا اضافہ مطلق افضلیت کے لئے نا کافی ثبوت ہے۔
دوسری وجہ: مفضول کے اندرچند ایسی فضیلت اور خصوصیات پائی جا سکتی ہیں جو افضل کے پاس نہ ہو، لیکن مجموعی طور پہ مفضول افضل کے برابر نہیں ہوسکتا۔
تیسری وجہ: یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ افضلیت دونوں کے ما بین اکٹھی ہو نے کا امکان ہے،اور وہ عام مسلمانوں کے بیچ مشترک عبادتوں میں ہوسکتا ہے، اور کسی کے عمل کو بعض صحابہؓ پر جزوی افضلیت دینے کا امکان موجود ہے۔ لیکن صحابۂ کرام جن خصوصیات کے حامل ہیں اور جو ان کی کامرانی کا سبب بنا ، ان میں نمایاں وصف اس محترم و مشرف ہستی ﷺ کے روئے انور کا دیدار ہے، جو سب پر بھاری ہے، کوئی کتنا بھی عمل کر لے ، چاہے ان کے برابر بھی عمل کر لے مگر ان کے مثل نہیں ہوسکتا۔(الصواعق المحرقۃ للہیثمی: ص:۳۲۱)
چوتھی وجہ: ابو جمعۃؓ کی حدیث کے لفظ پر سارے راوی متفق نہیں، حتی کہ بعض نے ’الخیرےۃ‘ کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا ہے، اور بعض نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے: قلنا یا رسول اللہ ہل من قوم أعظم منا أجرا؟أخرجہ الطبرانيہم نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ! کیاکوئی قوم ایسی بھی ہے جو اجر میں ہم سے بڑھ کر ہو۔ 
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں:اس روایت کی سندیں زیادہ قوی ہیں بہ نسبت ابو جمعہ کی روایت ، جو ابو ثعلبہؓ کی روایت کے موافق ہے اور اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔
اس اخیر فقرہ میں یہ تنبیہ مناسب ہے کہ جمہور علماء کا جو صحابہؓ کے سلسلے میں اختلاف ہے ، وہ سینئر اور بڑے صحابہ جیسے خلفاء اربعہ، عشرۂ مبشرہ، اہل بیعت عقبہ، اہل بدر، بیعت رضوان اور اہل تبوک وغیرہ۔۔۔۔۔۔ اس اختلاف میں شامل نہیں ہیں، اختلاف صرف ان صحابہؓ کے بارے میں ہے جنہوں نے محض آپ ﷺ کو صرف دیکھا ہے۔ اسی لئے امام ابن عبد البر ؒ نے اہل بدر اور اہل حدیبیہ کو اس نزاع سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔(فتح الباری ۷؍۷)

صحابہؓ کو گالی دینے کا حکم


صحابہؓ کو گالی دینے کا حکم
صحابۂ کرام کو گالی دینے کی کئی قسمیں اور شکلیں ہیں ،ہر قسم کا علٰحدہ اورخاص حکم ہے۔
گالی کی تعریف: ایسی بات جس میں کسی کی برائی، تنقیص کے بیان کا ارادہ کیا گیا ہو،اورجسے مختلف عقائد کے حامل افراد گالی کو اپنی عقل و فہم کے مطابق سمجھتے بوجھتے ہیں، جیسے لعن طعن اور قباحت بھرے الفاظ(الصارم المسلول:۵۶۱)۔
صحابہؓ کو گالی دینے کے مختلف درجات ہیں، جن میں سے بعض دوسرے سے زیادہ بُرے ہیں: کوئی فاسق اور فاجر کہہ کر گالی دیتا ہے اور کوئی دنیوی معاملات میں بخیلی اور فکر ناتواں جیسے کلمات کا استعمال گالی کیلئے کرتا ہے، اور یہ گالی کبھی تمام یا اکثر صحابہؓ کے لئے دیکھنے میں آتی ہے یا کبھی چند صحابہ یا کبھی ایک ہی صحابی کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے حالانکہ اس صحابی کی فضیلت میں متواتر نصوص وارد ہوتے ہیں یا کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔

سبِّ(گالی) صحابہؓ کی قسمیں اور اُن کا حکم

سبِّ(گالی) صحابہؓ کی قسمیں اور اُن کا حکم
اول: جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ کو کافر، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی: 
ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول(قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے، جب کہ قرآن نے صحابہؓ کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے۔’ قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہؓ کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے‘(الرد علی الرافضۃ: ۱۹)تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
صحابہؓ کو گالی دینے کا مطلب نبیﷺ کو ایذاء پہنچانا ہے، اس لئے کہ وہ آپﷺ کے خواص، محبوب اور ساتھی تھے، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی۔ اور نبیﷺ کو تکلیف دینا کفر ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اس قسم کا حکم بیان کیا ہے:’’ جو اپنے گمان میں اس قدر تجاوز کرجائے کہ اللہ کے نبیﷺ کے انتقال کے بعد چندصحابۂ کرام کو چھوڑ کر سب مرتد ہوگئے تھے، یا انکی اکثریت فاسق ہوگئی تھی، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ اس نے قرآن کے نصوص کو جھٹلایا، جو ان کی فضیلت میں کئی جگہ واردہیں، جیسے اللہ کا اُن سے راضی ہوجانا، اُن کی مدح و ثناء بیان کرنا،تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ خود کافر ہے۔ ابن تیمیہؒ نے آگے لکھا: کہ ایسے لوگوں کا یہ کفر دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لازما جانا جائے‘‘(الصارم المسلول: ۵۸۶)
امام ہیثمی ؒ کہتے ہیں: کہ علماء کا اختلاف بعض صحابہ کو گالی دینے کے سلسلے میں ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں؟ لیکن تمام صحابہؓ کو گالی دینے والایقیناًکافر ہے(الصواعق المحرقۃ: ۳۷۹)
مذکورہ دلائل کی توضیح کے ساتھ یہاں بعض علماء کے دوسرے تفصیلی دلائل بیان کئے جارہے ہیں: 
(۱) سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر پیچھے گزری ہے: اللہ کا قول: (محمد رسول اللہ والذین معہ ۔۔الی ۔۔لیغیظ بہم الکفار) امام مالک ؒ نے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جو صحابہؓ سے بغض رکھے وہ کافر ہے ، ایسے لوگوں سے صحابہؓ خود بغض رکھتے تھے، اور صحابہؓ جس سے نفرت کریں ، وہ کافر ہے، امام شافعی اور دوسرے علماء کا بھی یہی موقف ہے(الصواعق المحرقۃ،ص: ۳۱۷)
(۲) بخاری و مسلم کے حوالے سے أنسؓ کی روایت پیچھے گزری ہے جس میں اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور اُن سے بغض نفاق کی علامت ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لایبغض الأنصار رجل آمن باللہ والیوم الآخر (مسلم: ۱؍۸۶) اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ تو جو لوگ انہیں گالی دیتے ہیں ، اُن کا منافق ہونا واجب ہوگیا، جن کا ایمان نہ تو اللہ پر ہے اور نہ ہی آخرت کے دن پر(الصارم المسلول،ص: ۵۸۱)
(۳)امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبے ایک شخص کو دُرّے لگائے جس نے اُن کو ابو بکرؓ پر فوقیت دی تھی،اور پھر عمرؓ نے فرمایا تھا: ’’ابو بکرؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں، فلاں فلاں چیزوں میں۔۔۔‘‘ پھر کہا:جو اس کے خلاف کہے گا،اُس پر ہم حد نافذ کریں گے جیسا کہ اُس جھوٹے کو دُرّے لگائے گئے‘‘(فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۳۰۰)
اسی طرح امیر المومنین علیؓ بن ابی طالبؓ نے فرمایا: ’’مجھ کو کوئی بھی ابو بکرؓ وعمرؓ پر فضیلت نہ دے ، ورنہ میں اُس پر افتراء پردازی کی حد نافذ کروں گا‘‘ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۸۳)
جب دو خلیفۂ راشد عمرؓ و علیؓ اُن لوگوں پر افتراء پردازی کی حد نافذ کرنے کا عزم کرتے ہیں جوعلیؓ کو ابوبکرؓ و عمرؓ پر ترجیح دیتے ہیں یا جو عمرؓ کو ابو بکرؓ پر فوقیت دیتے ہیں۔ حا لانکہ محض افضلیت کو اوپر نیچے کرنے میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ ہی گالی۔ تو اندازہ لگائیں کہ گالی کی سزا ان دونوں کے نزدیک کتنی بھاری رہی ہوگی ۔(الصارم المسلول،ص:۵۸۶)
دوم: جس نے بعض صحابہؓ کو گالی دی جس سے دین میں طعن و تشنیع لازم آتی ہے:
جیسے اُن پر کفر اور فسق کی تہمت لگائے، اوروہ صحابہؓ میں ایسے لوگ ہوں جن کے فضل میں متواتر روایتیں وارد ہیں، جیسے خلفائے راشدین۔ تو ان کو طعن و تشنیع کرنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے متواتر کو جھٹلایاہے۔
ابو محمد بن ابو یزید روایت کرتے ہیں کہ سحنونؒ نے فرمایا: ’’جس نے ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے یہ کہا: کہ وہ لوگ گمراہی اور کفر کی راہ پر تھے ، وہ واجب القتل ہے، ان کے علاوہ اگر دوسرے صحابہؓ کو بھی گالی دی گئی تو اُسے سخت سزا دی جائے گی‘‘(الشفاء للقاضی عیاض ۲؍۱۱۰۹)
ہشام بن عمار کہتے ہیں: ’’ میں نے امام مالک ؒ کو یہ کہتے ہوئے سناجو ابو بکرؓ و عمرؓ کو گالی دے اُسے قتل کردیا جائے گا، جو ام المؤمنین عائشہؓ کو گالی دے ، وہ بھی واجب القتل ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:( ےَعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ، أبدا ان کنتم مؤمنین)(النور:۱۷)اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا، اگر تم سچے مؤمن ہو۔تو جس نے عائشہؓ کو متہم کیا، اُس نے قرآن کی خلاف ورزی کی، اور قرآن کی خلاف ورزی کرنے والا قتل کردیا جائے گا(الصواعق المحرقۃ، ص:۳۸۴)۔
امام مالک ؒ کا دوسرا قول: ’’جس نے ابو بکرؓ کو گالی دی اُسے کوڑے لگائے جائیں گے، اور جس نے عائشہؓ کو گالی دی اُسے قتل کردیا جائے گا، اُن سے پوچھا گیا: ایسا کیوں؟ تو انہوں نے کہا: جس نے ان پر تہمت تراشی کی، گویا اُس نے قرآن کا انکار کیا‘‘ظاہر میں (واللہ أعلم) امام مالک ؒ کا مقصد یہاں ابو بکرؓ کو گالی دینے سے آدمی کافر نہیں ہوگا، جب کہ عائشہؓ کو گالی دینے والا کافر ہے،یہاں مخصوص گالی(تہمت تراشی) دینے والے کو کافر کہا گیا ہے ، دوسرے اقسام کی گالیاں اس حکم میں داخل نہیں ہیں، حالانکہ پہلی روایت میں امام مالکؒ سے ثابت ہے کہ ابو بکرؓ کی تکفیر کرنے والا واجب القتل ہے(الشفاء: ۲؍۱۱۰۹)۔
امام ہیثمیؒ حضرت ابو بکرؓ کو گالی دینے کاحکم بیان کرتے ہیں:خلاصۂ کلام یہ ہے کہ احناف کے نزدیک أبو بکرؓ کو گالی دینے والا کافر ہے، شافعیوں کامسلک بھی یہی ہے، البتہ مالکیوں کے نزدیک مشہور مسلک یہی ہے کہ وہ کافر نہیں ہے بل کہ اُسے کوڑے مارے جائیں گے، دوسری جگہ پر امام مالک ؒ خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں،تو ان کے نزدیک مسئلہ کی دو شکلیں بنتی ہیں: اگر تکفیر کے خاطر خواہ اسباب نہیں پائے جاتے ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کرتے، ورنہ اُسے کافر قرار دیتے ہیں(الصواعق: ۳۸۶) امام ہیثمی دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو لوگ ابو بکرؓ اور ان کے ہمراہی کوکافر قرار دیتے ہیں،جن کے لئے نبیﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے ،اس سلسلے میں امام شافعیؒ کے اصحاب خاموش ہیں، لیکن میرا نظریہ ہے کہ وہ صریح کفر ہے(الصواعق: ۳۸۵) ۔
خرشی ؒ کہتے ہیں: جس نے حضرت عائشہؓ پر ایسی تہمت لگائی، جس سے اللہ نے ان کی برأت فرمائی ہے ، یا جو لوگ ابوبکرؓ کی صحابیت ،یا عشرۂ مبشرہ کے اسلام، یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ میں سے کسی تکفیرکرے تو وہ کافر ہے(الخرشی علیٰ مختصر خلیل:۸؍۷۴)
خطیب بغدادی کہتے ہیں: کہ علماء لکھتے ہیں:وہ شخص کافر ہے جو عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کی تکفیر کرے، اسی طرح نبیﷺ کی تمام ازواج مطہرات کا احترام اور ان سے محبت واجب ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کی بھی تکفیر کرے، اُسے کافر قرار دیا جائیگا(الفرق بین الفرق،ص: ۳۶۰)
اس مسئلہ میں اختلاف مشہور ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ وہ کافر ہے جو انہیں گالی دے یا ان کی تکفیر کرے۔جو لوگ کفر کے قائل نہیں ہیں، اُن کا اتفاق ہے کہ وہ فاسق ، اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔صحابی کے مقام و مرتبہ اور گالی کی نوعیت دیکھ کر ایسے لوگوں کو سزا دینی چاہئے۔مزید ملاحظہ فرمائیں: ہیثمیؒ کہتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ جو صحابہ کو فاسق قرار دے وہ کافر نہیں ہے۔(الصواعق المحرقۃ: ۳۸۳)۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: ’’ ابراہیم نخعیؒ نے کہا: کہ ابوبکرؓ و عمرؓکو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح ابو اسحاق سُبیعی سے منقول ہے: ابوبکرؓ و عمرؓکو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں اس لئے شمار ہے کیونکہ اللہ نے اُن کے بارے میں فرمایا: (ان تجتنبوا کبآئر ما تُنہونَ عنہُ)(النساء:۳۱)اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے۔
اگر صحابہؓ کو گالی دینے کی یہی شکل ہے تو گالی دینے والے کو تادیبا سزا دی جائے گی، کیونکہ سزا ہر اس معصیت پر دی جا سکتی ہے جس پر حد اور کفارہ ثابت نہیں ہے، اور اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان (صحابہؓ، تابعین، اہل سنت والجماعت)کوئی اختلاف نہیں ، بل کہ سب کا اس بات پر اجماع ہے: کہ صحابہؓ کی مدح و ثناء ، اُن کے لئے استغفار اور رحمت طلبی واجب ہے، اور اُن کے متعلق گالی گلوچ کرنے والے کو سزا دی جائے گی(اللآلکائی: ۸؍۱۲۶۲)
قاضی عیاضؒ کہتے ہیں: ’’ صحابہؓ میں کسی کو بھی گالی دینا گناہ کبیرہ ہے، گالی دینے والے کو قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دی جائیں گی، یہی میرا اور جمہور علماء کا مسلک ہے‘‘(مسلم بشرح النووی۱۶؍۹۳)
عبد الملک بن حبیبؒ کہتے ہیں: ’’کوئی غالی شیعہ عثمانؓ سے بغض اور برأت کا اظہار کرے، اُسے سخت سزادی جائے گی، اور وہ اگر ابوبکرؓ و عمرؓ سے نفرت و عداوت کا اظہار کرے تو اُس پر سزا بڑھادی جائے گی، اُس کی پٹائی ڈبل کی جا ئے گی، اور اُسے تا حیات جیل میں رکھا جائے گا(الشفاء:۲؍۱۱۰۸)
ابو بکرؓ کو گالی دینے والے کو محض کوڑے مارنے پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا، کوڑا صرف رفاقت نبیﷺکے انکار یا سب و شتم پرلگایا جائے گا، اگر کوئی انکی دینی حمیت و نصرت، خلافت اور ان کی فتوحات کو مطعون کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کی ملعون جرأت پر علٰحدہ سزا دی جائے گی (الصواعق المحرقۃ: ص۳۸۷)۔ اور حاکم وقت ان سزاؤں کو ہر حال میں نافذ کرے گا۔
امام أحمد ؒ کہتے ہیں: کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ صحابہؓ کی معمولی بھی بُرائی کرے یا اُن کے عیب و نقص ڈھونڈے اور نشتر چلائے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سلطان(حاکم) پر واجب ہے کہ اُسے سخت سزا دے، اسے معاف نہیں کیا جاسکتا، سماعت کے دوران اگر توبہ کرلے تو اُسے چھوڑ دیا جائے گا، پھر وہی غلطی کرے تو اُسے حبس دوام کی سزا دی جائے گی،یہاں تک اُس کی موت ہوجائے یا پھر اپنی غلطی سے تائب ہوکر رجوع کرلے(طبقات الحنابلہ ۱؍۲۴)
میرے مسلمان بھائی! آپ امام احمد ؒ کے اس قول پر غور کریں کہ کسی ایک صحابی پر طعن یا عیب لگاناکس قدر سزا کا موجب ہے ، اور صحابہؓ کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور گالی دینے والے کا حکم یہ ہے کہ وہ کفر کی جہت سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب ؒ سبِّ صحابہؓ کا حکم بیان کرتے ہیں: جس نے خصوصیت کے ساتھ بعض صحابہ کو گالی دی جن کے فضل و کمال کے متعلق متواتر روایتیں موجود ہیں جیسے خلفاء راشدین۔ تو جو اُنہیں گالی دینے کو جائز سمجھے،اُس نے کفر کیا، اللہ کے نبیﷺ کے ارشادات کو جھٹلانے کے نتیجے میں۔ اور سنت کی تکذیب کرنے والا کافر ہے۔ اور جس نے یونہی گالی دی تو اُس نے فسق کا ارتکاب کیا، اس لئے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ شیخین(ابو بکرؓ و عمرؓ) کو مطلقا گالی دینے والا بھی کافر ہے۔واللہ أعلم(الرد علی الرافضۃ:ص:۱۹) 
امام أحمد ؒ کے قول پر قاضی أبو یعلیٰ تعلیقا لکھتے ہیں: جب اُن سے صحابہ کو گالی دینے کا حکم پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا ’’ما أراہ علی الاسلام‘‘ کہ میں ایسے شخص کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں احتمال اس بات کا ہے کہ جب وہ گالی دینے کو حلال جانے، ایسی صورت میں وہ بلا اختلاف کافر ہے، اور ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا جو اس بات کا عقیدہ رکھے کہ اُنہیں گالی دینا حرام ہے ، لیکن منہ سے اُ ن کے لئے گالی نکل گئی ۔ یہ اُسی طرح ہے جیسے آدمی کوئی گناہ کا کام کرتا ہے۔(الصارم المسلول،ص: ۵۷۱) 
خلاصۂ کلام یہ کہ ایسی گالی اور طعن جو صحابہ کے دین اور عدالت کو مجروح کرے، جن کی فضیلت میں متواتر نصوص وارد ہیں، ان کو گالی دینے والا ‘راجح قول کے مطابق کافر ہے، اس لئے کہ اس نے امر متواتر کو جھٹلایا ہے، اور جن علماء نے کفر کا حکم نہیں لگایا ہے ، اُن کا اجماع ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ ہے ،تادیب و سزا کا حقدار ہے، امام وقت کو حق نہیں کہ اُسے معاف کردے، بلکہ اُس کی سزا میں صحابی کے رتبے کو دیکھتے ہوئے اضافہ بھی کیا جائے گا۔اور وہ کافر اُس وقت ہوگا جب انہیں گالی دینے کو حلال جانے۔اور جو سبِّ صحابہؓ کو عین ایمان سمجھے، اللہ کی عبادت تصور کرے، اس کو کافر قرار دینے میں علماء متفق ہیں، اور اس سلسلے میں علماء کے واضح اقوال و دلائل پیچھے گزر چکے ہیں۔اس نوع کی تفصیل بیان کرنے کے بعد ان شاء اللہ آگے کے موضوعات بہت آسانی سے واضح ہوجائیں گے۔ 
سوم: اُن صحابہؓ کو گالی دینے کا حکم جن کی فضیلت میں متواتر نص وارد نہیں، مگر اُن کے دین میں طعن کا سبب بنتا ہے:
ہم نے پچھلے سطور میں یہ واضح کردیا ہے کہ متواتردینی فضیلت کے حاملین صحابہؓ کو گالی دینے والا کافر ہے ، اور جن کے بارے میں متواتر نص وارد نہیں ہیں ، جمہور علماء ان کو کافر قرار نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی صحابیت کو طعن و تشنیع کرے تو وہ کافر ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب ؒ کہتے ہیں:’’ جن کے فضل وکمال کے بارے میں متواتر نصوص وارد نہیں ہیں اُن کو گالی دینے والا فاسق ہے ، لیکن اگر رسول اللہﷺ کے ساتھی ہونے کی حیثیت سے گالی دے ، تو وہ کافر ہے‘‘(الرد علیٰ الرافضہ: ۱۹)
چہارم: صحابہؓ کو ایسی گالی دینے کا حکم جو اُن کے دین اور عدالت وثقاہت کومطعون نہ کرے: 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا شخص تادیب و سزا کا مستحق ہے ، لیکن میرے مطالعہ کے دوران میں نے کسی بھی عالم کو نہیں پایا جو اس طرح کی گالی دینے والوں کو کافر کہیں،اور اُن علماء کے نزدیک کبار و صغار صحابہؓ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’صحابہؓ کو ایسی گالی دینا جس سے اُن کی عدالت وثقاہت اور دین پر کوئی آنچ نہیں آتی،جیسے: کسی کو بخیل، بزدل، کم علم، کھلنڈرا وغیرہ صفات سے متصف کرنا ، تو ایسے شخص کو سزا دی جائے گی، اور ہم اُس پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے، اور علماء نے جن گالی دینے والوں کی تکفیر نہیں کی ہے، وہ اسی قسم سے متعلق ہے‘‘(الصارم المسلول:۵۸۶) ابو یعلیٰ نے اتہام کی ایک مثال یہ بھی دی ہے، کہ ان میں سے کسی پر سیاسی بصیرت کی کمی کا الزام لگائے(الصارم المسلول:۵۷۱) 
اس جیسی اور مثالیں جیسے: کمزور رائے، کمزور شخصیت ، غافل، صاحب دنیا وغیرہ کہنا بھی گالی ہی ہے۔ اس قسم کا طعن اور اس طرح کی گالی تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں، بعض معاصر اسٹڈیز(اہل سنت سے منسوب)منہج علمی و موضوعی کے نام پر یہ حرکتیں کر بیٹھے ہیں، اور اس طرح کی تحقیقات پر مستشرقین کا اثر غالب ہے۔