اتوار، 21 جولائی، 2013

تاریخ صحابہ کے متعلق بحث کی اساس

تاریخ صحابہ کے متعلق بحث کی اساس 
اوّل:صحابہؓ کے ما بین جھگڑوں سے متعلق گفتگو کی کوئی حیثیت نہیں، اہل سنت کے نزدیک جو اصل عقیدہ ہے وہ صحابہؓ کے باہمی جھگڑوں میں توقف اختیار کرنا ہے ، علمائے اہل سنت کی کتب عقائد میں اس کی تفصیل موجود ہے ، جیسے: (السنۃ لعبد اللہ بن أحمد بن حنبلؒ )، (السنۃ لابن أبي عاصم)، (عقیدۃ أصحاب الحدیث للصابوني)، (الابانۃ لابن أبي بطۃ)، (الطحاوےۃ للطحاويؒ ) وغیرہ۔
یہ توقف اُس شخص کے لئے بے حد ضروری ہے جسے شک و شبہ اور فتنہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، اور یہ تعارض کے نتیجے میں ہوتا ہے ، جب اس کے ذہن میں صحابہؓ کی عدالت ، ان کی فضیلت و منقبت کے متعلق محض ایک فکر ہوتی ہے، یا وہ بھی نہیں ہوتی جب وہ بچہ ہو یا نو مسلم ہو، پھر جب وہ صحابہؓ کے ما بین اجتہادی اختلافات کو پڑھتا ہے تو فتنہ میں پڑ جانے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے اور وہ انجانے میں صحابہؓ کی تنقیص(خامی و بُرائی) کر جاتا ہے، جو اس کے لئے جائز نہیں۔
سلف کے یہاں ایک تعلیمی و تربیتی قاعدہ مقرر ہے: کہ علمی مسائل لوگوں کے سامنے اُس وقت تک نہ پیش کئے جائیں جب تک اُن کی عقلیں بالغ و پختہ نہ ہوجائیں، امام بخاریؒ لکھتے ہیں: (باب من خص با لعلم قوما دون قوم کراہےۃ ألا یفہموا) اُس کا بیان جس نے ایک قوم کو علم کے اسلحہ سے لیس کیا ، اور ان کی طر ف توجہ نہیں دی جن کا سمجھنا دشوار تھا۔(فتح الباری ۱؍۱۹۹)
حضرت علیؓ کہتے ہیں: معروف (ثقہ)لوگوں سے ہی حدیثیں بیان کرو، کیا تم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر افتراء پردازی کو پسند کرو گے؟۔ حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں تعلیقا لکھتے ہیں: اس میں دلیل موجود ہے کہ متشابہہ امور کا ذکر عوام الناس میں نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: تم کسی جماعت یا قوم (جن کی عقلیں بالغ نہ ہوں)اُن سے ایسی گفتگو نہ کرو، جو بعض کے لئے فتنہ بن جائے۔ (رواہ مسلم فی المقدمۃ) بعض علماء نے اس کو نا پسندیدہ قرار دیا ہے کہ بعض احادیث کے الفاظ کو اس کے علاوہ پر محمول کیا جائے، امام أحمد ؒ نے اُن احادیث میں محتاط رہنے کو کہا ہے جس کا ظاہری لفظ حاکم وقت کی بغاوت پر دلالت کرتا ہے، امام مالکؒ نے صفات بارئ تعالیٰ کے متعلق احادیث میں الجھنے سے منع کیا ہے، امام أبو یوسفؒ نے غرائب کے باب میں احتیاط برتنے کو کہا ہے، اور لکھا ہے: اس کا قاعدہ یہ ہے : کہ اگر ظاہر حدیث میں بدعت کی تقویت ہو رہی ہو تو در اصل وہ مراد نہیں ہے ،تو جن کے بارے میں خدشہ ہو کہ وہ ظاہری معنیٰ لے لیں گے تو انہیں توقف اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھ جانے کی تاکید کرنی چاہئے، واللہ أعلم(فتح الباری ۱؍۱۹۹) 
د وم: اگر ضرورت پڑ ہی جائے کہ صحابہؓ کی باہمی جنگوں اور اختلافات کا ذکر ہو تو صحابہؓ کے ما بین فتنوں کے متعلق احادیث و روایات کی تحقیق نہایت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یآ أیہا الذین ء ا منوا ان جا ء کم فاسق بنبأ فتبینوا أن تصیبوا قوما بجہالۃ فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین(الحجرات: ۶) اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
یہ آیت مؤمنوں کو حکم دیتی ہے کہ خبریں فاسقوں کے حوالے سے نہ لی جائیں، اور اگر لینی ہو تو اس کی پہلے تحقیق کرلیں،تا کہ اس کو پھیلانے کے بعد ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے، اسی طرح صحابہؓ کے حوالے سے کوئی روایت بیان کرے تو اس کی تحقیق ضرور کر لیں اس لئے کہ وہ مؤمنوں کے سردار تھے، اور ایسے وقت جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ان روایات میں جھوٹ اور تحریف نے در اندازی کرلی ہے، کبھی حدیث کی سند میں کبھی متن میں کبھی دونوں میں کمی و زیادتی کی گئی، فاسقوں نے حذف واضافہ کے ذریعے روایتوں کو مذموم و مطعون بنا دیا۔ اور اس طرح کی روایتیں اسی قبیل سے ہیں جن کو معروف و مشہور کذابوں نے روایت کی ہیں، جیسے: أبو مخنف لوط بن یحییٰ، ہشام بن محمد بن السائب الکلبی اور ان کے جیسے بے شمار ۔(منہاج السنۃ : ۵؍۷۲)
اسی بنیاد پریہ جائز نہیں کہ ہم صحابہؓ کی فضیلت میں واردمتواتر نصوص کو دھکا مار دیں اُن روایتوں کے مقابل جو منقطع ہیں یا جن میں تحریف و توہین کی گئی ہو، اس لئے کہ یقین اور شک دونوں ساتھ نہیں رہ سکتے، ہم پورے یقین کے ساتھ ان کی فضیلت کے قائل ہیں، اور مشکوک امور میں کسی پر طعن و تشنیع نہیں کی جاتی اور اس وقت خاص طور پہ جب اس کے باطل ہونے کا علم ہو۔(منہاج السنہ ۶؍۳۰۵) 
سو م: اگر جرح و تعدیل کی کسوٹی پرعیب و خرابی والی روایتیں صحیح قرار پا جائیں ، تو ہم ان کے لئے معقول عذر تلاش کریں گے۔ ابن أبی زید کہتے ہیں: ان کے باہمی جھگڑوں میں توقف اختیار کیا جائے، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے متعلق حسن ظن رکھا جائے اور مناسب عذر و حیلہ تلاش کیا جائے
(مقدمۃ رسالۃ ابن أبی زید القیروانی: ۸)
ابن دقیق العیدؒ کہتے ہیں: کہ صحابہؓ کے باہمی جھگڑوں اور اختلافات کے متعلق جو روایتیں اُن سے منقول ہیں : کچھ ان میں باطل اور جھوٹی ہیں جن کی طرف ہر گزرُخ نہیں کرنا چاہئے، جو اُن میں صحیح ہوں ہم اس کی بہتر تأویل کریں گے، اس لئے اللہ نے پہلے ہی ان کی مدح وثناء بیان کردی ہے، اور جو بھی بات اس ضمن میں ذکر کی جائے وہ تاویل کا احتمال رکھتی ہے، اور مشکوک و موہوم چیزیں متحقق و مستند چیزوں کو باطل نہیں ٹھہرا سکتیں۔(اصحاب رسول اللہ و مذاہب الناس فیہم: عبدالعزیز العجلان،ص: ۳۶۰) یہ عمومی حکم ہے اُن روایتوں کا جو ان کی طعن و بُرائی میں وارد ہوئیں۔
چہارم: ان کے اختلافات کے متعلق جو خاص روایتیں وارد ہوئی ہیں، وہ اگر نقد علمی کے ترازو میں ثابت ہو گئی ہوں ، تو جاننا چاہئے کہ وہ لوگ مجتہد تھے، جب اُن پر مسائل و معاملات مشتبہ ہوتے گئے ، تو اُن کے اجتہادات بھی جدا ہوتے گئے، اور تین قسموں میں بٹ گئے:
پہلی قسم:بعض نے اجتہاد کیا کہ اس طرف کے لوگ بر حق ہیں، اور ان کے مخالف باغی ہیں، تو اپنے اجتہاد کے مطابق اس جماعت کی مدد کی اور باغیوں سے جنگ کی۔ اور یہ جائز نہیں تھا کہ امام عدل پر باغیوں سے جنگ کرنے میں تاخیر کا الزام لگایا جاتا۔
دوسری قسم: پہلی قسم کے بر عکس انہوں نے اجتہاد کیا مگر دوسری جماعت کو بر حق سمجھا، ان کی مدد کی اور مخالف جماعت سے جنگ کی۔
تیسری قسم: بعض صحابہؓ کرام پر معاملہ مشتبہ ہوگیا کہ کس کا ساتھ دیں کس کا نہ دیں؟ تو یہ لوگ دونوں جماعتوں سے علیٰحدہ ہوگئے، اور اپنے اجتہاد میں الگ ہونے کو واجب جانا، کیونکہ انہوں نے کسی مسلمان سے لڑائی کو حرام سمجھا۔(مسلم بشرح النووی:۱۵؍۱۴۹، الاصابہ: ۲؍۵۰۱)
اس جنگ میں سب کے سب نے تاویل کی ، ہر جماعت شبہہ میں مبتلاتھی اور اپنے اجتہاد کے سبب اپنے کو حق بجانب قرار دے رہی تھی، لیکن وہ عدالت و ثقاہت کے مرتبے سے خارج نہیں ہوتے ہیں، فقہی مسائل میں مجتہدین کے اختلاف کی مانند اُن کا اختلاف ہے،کسی ایک کی بھی تنقیص جائز نہیں، وہ تو ایک اور دو اجر کے درمیان میں ہیں۔
یہ جاننا بھی بہت اہم ہے کہ صحابہؓ کی یہ باہمی جنگ امامت و خلافت کے لئے نہیں تھی، جنگ جمل اور صفین کے شرکاء نے علیؓ کی خلافت کے خلاف جنگ نہیں کی تھی، اور نہ ہی معاویہؓ نے اپنے کو خلیفہ کہلوایا تھا، طلحہؓ و زبیرؓ نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، جمہور علماء کے نزدیک یہ جنگیں محض فتنہ تھیں، اور عثمان غنیؓ کے قاتلوں سے کیفیت قصاص میں اجتہادجنگ کاسبب بنا۔ یہ مسئلہ اہل انصاف اور باغیوں سے جنگ کی قبیل سے ہے، کسی دینی قاعدے پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی دین کے اصولوں میں اختلاف کا باعث ہے۔(منہاج السنہ: ۶؍۳۲۷) 
عمر بن شبہ کہتے ہیں: ’’کسی نے یہ بات نہیں کہی کہ عائشہؓ اور اُن کے ساتھ والوں نے علیؓ سے خلافت کے سلسلے میں جھگڑے، اور نہ کسی کو پکارا کہ آؤ اور علیؓ سے خلافت لے لو، معاملہ صرف اتنا تھا کہ علیؓکاقاتلین عثمانؓ سے بر وقت قصاص نہ لینے پر انہوں نے نکیر کی تھی‘‘۔(فتح الباری: ۱۳؍۵۶)
امام ذہبی کا یہ قول بھی اسی کی تائید کرتا ہے: ’’کہ ابو مسلم الخولانی ایک جماعت کے ساتھ معاویہؓ کے پاس آئے اور کہا: آپ نے علیؓ سے جنگ کی ، کیا آپ انہی کی طرح(برابر) ہیں؟ معاویہؓ نے جواب دیا: خدا کی قسم نہیں! وہ مجھ سے بہت افضل ہیں،اور خلافت کے صحیح حقدار ہیں، لیکن کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ عثمانؓ مظلوم کی حیثیت سے قتل کر دئے گئے، اور میں ان کی پھوپھی کا لڑکا ہوں، اور ان کے قاتلوں سے قصاص کا طالب ہوں،تم سب جاؤ اور کہو کہ اُنہیں(قاتلین عثمانؓ) حاضر کیا جائے اور عثمانؓ کے قتل کا بدلہ لیا جائے اور میں ان(علیؓ) کی اطاعت کر جاؤں ، چنانچہ لوگ علیؓ کے پاس آئے اور بات کی، لیکن علیؓ نے قاتلوں کو ان کے سپرد کرنے سے انکار کردیا۔(سیر أعلام النبلاء : ۳؍۱۴۰)
حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: اسی لئے اہل شام نے معاویہؓ کے ساتھ علیؓ کے خلاف جنگ کا عزم کر لیا تھا۔(البدایہ والنہایۃ: ۸؍۱۳۲)
اسی طرح جمہور صحابہؓ اور امت کے افضل لوگ اس فتنہ میں شریک نہیں ہوئے، عبد اللہ بن امام أحمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: کہ میرے والد نے اسماعیل بن علےۃسے سنا اور انہوں نے أیوب السختیانی سے، اور انہوں نے محمد بن سیرین کو کہتے ہوئے سنا: جب فتنہ بھڑکا تو اس وقت وہاں دس ہزار کی تعداد میں صحابہؓ تھے، مگر اُس میں سو صحابہ بھی شریک نہیں تھے، بلکہ ان کی تعداد ایک قول کے مطابق تیس بھی نہیں پہنچی تھی۔
علامہ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں: روئے زمین پر اس سے زیادہ صحیح سند ہو ہی نہیں سکتی، محمد بن سیرین اپنے علاقے کے لوگوں میں سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار تھے، ان کی مرسل روایتیں أصح المراسیل قرار پائی ہیں۔(منہاج السنہ: ۶؍۲۳۶)
کہاں گئے بحث وتحقیق کے شائق حضرات؟کہاں گئے منصف باحثین؟ اس طرح کی صحیح نصوص کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے تا کہ وہ ان کے بحث کی بنیاد بن جائے، اور اپنے ذہن و دماغ کو خبر رسانوں کی تشویش سے محفوظ رکھ سکیں، اور اپنے پاس موجود خرافات کے ذریعے صحیح نصوص کی بے جا تاویل سے بچ سکیں۔
پنجم :ایک مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس بات کو بھی جانے کہ صحابہؓ کرام کواس فتنہ میں پڑنے پر شدید تکلیف پہنچی تھی،اور سخت غم وندامت سے دوچار ہوئے، ان کے وہم وخیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ نوبت جنگ تک پہنچ جائے گی، بعض شدت غم سے نڈھال ہوگئے جب انہوں نے اپنے بھائیوں کے قتل کی خبر سنی، اسی قبیل کی بعض دلائل ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں:
*یہ ہیں مسلمانوں کی محترم عفت مآب ماں عائشہؓ، امام زُہری ان سے روایت کرتے ہیں:میں نے تو صرف لوگوں کے درمیان اپنے رتبے کا تعین چاہا تھا، مجھے گمان نہ تھا کہ لوگ لڑ پڑیں گے، اگر میں یہ جان رہی ہوتی تو میرا یہ موقف ہرگز نہ ہوتا۔(مغاری الزہری، ص: ۱۵۴) ام المؤمنین عائشہؓ جب جب یہ آیت پڑھتیں: (وقرن في بیوتکن)اور تم (خواتین)اپنے گھروں کو لازم پکڑو۔رونے لگتی تھیں یہاں تک کہ اُن کا دوپٹہ تر ہوجاتا۔(سیر أعلام النبلاء: ۲؍۱۷۷)
*یہ ہیں مسلمانوں کے خلیفہ علیؓ! امام شُعبیؒ اُن کے بارے میں کہتے ہیں: جب طلحہؓ قتل کردئے گئے اور علیؓ نے انہیں مقتول حالت میں دیکھا تو اپنے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے اور کہنے لگے: ابو محمد! مجھے عزیز ہے کہ میں آپ کو آسمان کے ستاروں تلے ایک عظیم محترم ہستی سمجھوں، اور اللہ سے ہی میں اپنی عاجزی وکم مائیگی کا شاکی ہوں، علیؓ اور آپ کے تمام ساتھی رو پڑے، اور انہوں نے کہا: کاش! میں بیس سال قبل ہی مر گیا ہوتا ۔(اُسد الغابۃ :ابن أثیر: ۳؍۸۸) 
علیؓ دوسری جگہ کہتے ہیں: اے حسن!اے حسن!تمہارے باپ نے گمان نہیں کیا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا، اے کاش! تمہارا باپ بیس سال قبل ہی مر گیا ہوتا۔(منہاج السنۃ: ۶؍۲۰۹) وہ جنگ صفین کی راتوں میں کہتے تھے: اللہ عبد اللہ بن عمروؓ اور سعد بن مالکؓ کے مراتب بلند کرے (یہ دونوں صحابی فتنہ سے دور تھے)، اگر وہ حق بجانب ہیں تو وہ اجر عظیم کے مستحق ہیں، اور اگر اُن کا ہم سے الگ ہونا گناہ ہے، تو یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔(منہاج السنۃ: ۶؍۲۰۹)
یہ امیر المؤمنین علیؓ کا قول ہے ، جب کہ علماء اہل سنت کا کہنا ہے کہ علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے(فتح الباری:۱۲؍۶۷)
*یہ حوارئ رسول زبیر بن العوامؓہیں، کہتے ہیں: یہ وہ فتنہ جس کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں،(عائشہؓ کے ساتھ یہ بھی اس جنگ میں شریک تھے )، ان کے غلام کہہ بیٹھے: آپ اُسے فتنہ کہتے ہیں جب کہ آپ خود اس میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا: ہم محض آنکھ سے نہیں دیکھتے بلکہ اپنی بصیرت پر اعتماد کرتے ہیں،میں نے کسی معاملہ کا اقرار اُس وقت تک نہیں کیا جب تک اپنے دونوں قدموں کی جگہ پہچان نہ لی، سوائے اس معاملہ کے، میں جان نہ سکا اس فتنہ میں آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹوں۔(تاریخ الطبری: ۴؍۴۷۶)
*یہ امیر معاویہؓ ہیں، جب انہیں علی بن أبی طالبؓ کی شہادت کی خبر پہنچتی ہے، بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: انا للہ وانا الیہ راجعون، پھر رونا شروع کر دیتے ہیں، ان کی بیوی کہتی ہیں: کل آپ اُن سے جنگ کررہے تھے اور آج اُن پر رو رہے ہیں؟تو انہوں نے کہا: بے عقل!میں رو اس لئے رہا ہوں کہ لوگوں نے ایک برد بار، عالم،فاضل اور خیر کے معاملے میں سبقت لے جانے والی شخصیت کو کھو دیا ہے، دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں : تمہاری خرابی ہو! تم نہیں جانتی کہ لوگوں نے علم ،فقہ اور فضل کو کھو دیا ۔(البداےۃ والنہاےۃ: ۸؍۱۵،۱۲۳)
ان سارے اقوال کے بعد انہیں کیسے ملامت کیا جائے جب کہ حقائق اُن پر مشتبہ تھے، بعض صحیح تھے اور بعض نے غلطی کی، اور وہ سب ایک اور دو اجر کے ما بین ہیں، اور اس تکلیف دہ فتنہ پر تمام کے تمام صحابہؓ نادم تھے، انہوں نے توبہ کی تھی، وہ ایک ایسی مصیبت میں گرفتار تھے جس سے اللہ اُن کے گناہوں کو بخش دے گا، اُن کے درجات بلند کرے گا، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: لا یزال البلاء بالمؤمن حتی یسیر في الأرض ولیس علیہ خطےءۃ(رواہ الترمذي، و حسنہ الألبانی في المشکاۃ: ۱؍۴۹۲ عن سعد) مؤمن برابر آزمائشوں کا شکار رہتا ہے،(انہی مصائب کے ساتھ)وہ زمین میں چلتا رہتا ہے اور اُس پر کوئی گناہ نہیں رہ جاتا۔
بالفرض اگر مان لیا جائے کہ اُس فتنہ میں بعض سے گناہ سر زد ہوئے، تو اس کے کفارہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اسباب مہیا کر رکھے ہیں، اور سب سے بڑا سبب ماضی میں کی گئی نیکیاں (سبقت اسلام، جہاد ، ومناقب وغیرہ)ہیں، ان کے استغفار اور توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت کرے، اور اللہ کا فضل عظیم ہے۔ (منہاج السنۃ: ۶؍۲۰۵)
ششم :ہم ان کے بارے میں بھلی باتیں ہی کہیں گے، اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ تمام صحابہ کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے پاک تھے، وہ معصوم نہیں تھے، ان سے گناہ سر زد ہو سکتے ہیں، مگر ان کی فضیلت و سبقت کے باعث انہیں مغفرت الٰہی کا پروانہ عطا ہو چکا ہے، اور اگر کسی سے کوئی گناہ سر زد ہوا بھی ہے ، تو انہوں نے فورا توبہ کی ہے، یا ایسی نیکیاں کی ہیں جن سے وہ گناہ مٹ جائے گا، یا اسلام میں انکی سبقت کے سبب مغفرت ہوجائے گی، یا نبی اکرمﷺ کی شفاعت سے بخش دئے جائیں گے، اور صحابہؓ نبیﷺ کی شفاعت کے اولین حقدار ہیں، یا اللہ تعالیٰ کسی آزمائش میں ڈال کر انہیں بخش دے گا، یہ اُن گناہوں کا معاملہ ہے جو بغیر اجتہاد کے سر زد ہوئے، تو پھر جس میں اجتہاد کیا ہو ، اس کا انجام تو اچھا ہی ہوگا، اگر اجتہاد صحیح رہا تو دو اجر ملیں گے اور اگر غلطی ہوئی تو ایک اجر ہر حال میں ملے گا، اوریہ غلطی بخشی بخشائی ہے۔
پھر وہ تعداد جن کے فعل پر نکیر کی گئی، نہایت کم‘ بل کہ نہ کے برابر ہے، وہ اپنی قوم کی فضیلتوں کے پہلو میں بخش دئے جائیں گے، ان کے ایمان، جہاد ہجرت و نصرت، علم نافع اور عمل صالح جیسے محاسن ذریعہ بنیں گے۔(شرح العقیدۃ الواسطےۃ:لخلیل ہواس: ۱۶۴ )
امام ذہبیؒ کہتے ہیں: کہ قوم نے اسلام میں سبقت کی ہے، اور ایسے اعمال انجام دئے ہیں جو ان کے ما بین واقع ہونے والے فتنے کا کفارہ بن جائیں گے، انہوں نے مشقت بھری لڑائیاں اللہ کی راہ میں لڑی ہیں، بے مثل عبادتیں کی ہیں، ہم میں سے کوئی بھی ان کے بارے میں غلو نہیں کرتا، اور نہ ہی ہم ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔(سیر أعلام النبلاء:۱۰؍۹۳) 
ان سب کے بعد، ہمارا ا عتقاد ہے کہ عدالت صحابہؓ کے لئے معصوم ہونا لازم نہیں، عدالت‘ سیرت و کردار اور دین پر استقامت کا نام ہے ، دین اور کردار کی سلامتی نفس میں تقویٰ، شرافت و مروء ت کوٹ کوٹ کر بھر دیتی ہے، اور اسی سچائی کی بدولت خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ تمام گناہوں سے معصوم نہیں ہیں۔(المستصفیٰ للغزالی: ۱؍۱۵۷)
اس کے ساتھ واجب ہے کہ ہم صحابہؓ کے عیب اور برائیوں کو بیان کرنے سے باز رہیں، اور اگر ان کی لغزشوں کا ذکر نا گزیر ہوجائے ، تو ان کی فضیلت ، توبہ ،جہاد اور مراتب بھی ساتھ میں بیان کئے جائیں، جیسے صحابی پر ظلم کی مثال: حاطب بن أبی بلتعہؓ کو لے لیں، کہ ہم ان کی لغزش کا تو ذکر کریں اور ان کی توبہ کو بھول جائیں، انہوں نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر عوام سے کوئی ظلما ٹیکس لینے والا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب بھی حاطبؓ کی طرح توبہ کرتا، تو اللہ اُس کو بھی قبول کر لیتا۔(الامامۃ لأبی نعیم: ۲۴۰)
آدمی اپنی معمولی غلطی پر عیب نہیں لگایا جائے گا،جب اُس نے اپنی زندگی میں کوئی غلطی کی اور اُس پر توبہ کر لی، تو اُسکے حسن خاتمہ کو دیکھا جائے گا نہ کہ آغاز کی غلطی کو۔اور اگر وہ نیکیوں اور مناقب کا حامل ہے ، اور کسی نے اس کا تزکیہ نہ کیا ہو(عمومی حالات میں)، پھر کیسے اُن پر عیب لگایا جائے گا، جب کہ ان کا تزکیہ دلوں کے بھید کا جانکار خالق دو عالم نے کیا ہے۔ 
(ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذین آمنوا، ربنا انک رءُ وف رحیم) (الحشر:۱۰) اے ہمارے پروردگار!ہمیں بخش دے،اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب!بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
اے اللہ ! تو ہمیں اُن لوگوں میںِ شمار کر جو تیرے رسولﷺ کے صحابہؓ سے محبت کرتے ہیں، اُن کی مدح و ثناء کرتے ہیں،اُن کے دفاع میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے منہج کی پیروی کرتے ہیں۔(آمین)
وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔
۱
********

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں