اتوار، 21 جولائی، 2013

صحبت رسول ﷺکا بے نظیرمقام

صحبت رسول  کا بے نظیرمقام
صحابۂ کرام کی تعظیم اور ان کی قدر و منزلت کی معرفت‘ کبار صحابہؓ کے نزدیک مسلم امر ہے، اگر صحابی نے محض چند لمحات ہی اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ گزارا ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ اپنی یاد داشت کے مطابق کہتے ہیں: میں نے محمد بن قدامۃ المروزی کی کتاب ’’أخبار الخوارج‘‘ میں یہ قصہ پڑھا: سند ذکر کر نے کے بعد ،نبیج العنزی بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدریؓ کے پاس بیٹھے تھے اور ابو سعید ٹیک لگائے ہوئے تھے،تو ہم نے علیؓ اور معاویہؓ کا ذکر چھیڑ دیا، ایک آدمی معاویہؓ کوغلط کہنے لگا، اتنے میں ابو سعید تن گئے اور تادیب کے لئے اپنا قصہ بیان کیاجس میں وہ اور ابو بکرؓ نیز ایک دیہاتی(بدو)رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، پھر ابو سعیدؓ نے کہا: ایک مرتبہ میں نے دیکھا اُسی بدو کو عمرؓفاروق نے بلوایا تھا اوراس کا قصور تھا، اس نے انصار کی ہجو بیان کی تھی ، عمرؓ نے مجلس میں لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: اس بدو کو اگر نبیﷺ کی صحبت نہ ملی ہوتی ، تو مجھے خود خبر نہیں کہ آج کیا ہوجاتا ، اور تم سب پر تنہا کافی ہوتا۔(الصارم المسلول: ۵۹۰) حافظ ابن حجرؒ نے کہا: اس قصہ کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
عمر فاروقؓ نے اُس بدو کو سزا دینا تو دور، اُس کی سرزنش بھی نہیں کی، صرف اس وجہ سے کہ اس نے اللہ کے نبیﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے، یہ واضح دلیل ہے کہ صحابہ کا خود عقیدہ تھا کہ شان صحبت کا کوئی بدل نہیں۔
وکیعؒ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوریؒ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کا قول ہے :(قُل الحمد للہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ) (النمل:۵۹) تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اُس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام ہے۔ انہوں نے کہا: کہ اس سے مراد محمد ﷺ کے صحابہؓ ہیں۔ تواس حسن انتخاب و اختیار کا تصور و ادراک مشکل امر ہے، یہ ایسامعاملہ ہے جہاں عقل کے گھوڑے بھی نہیں دوڑائے جا سکتے۔اور خواہ کسی کے اعمال کتنے ہی بڑھے ہوئے ہوں، صحابہ کی فضیلت کو نہیں پا سکتے، (اس لئے صحابہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کا موازنہ درست نہیں)۔
عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:’’ محمدﷺ کے ساتھیوں کو گالی مت دو، ان کے مقام کا حال یہ ہے کہ اُن کا تھوڑا سا نیک عمل تمہارے چالیس سال کی نیکیوں پر بھاری ہے‘‘ وکیعؒ کی روایت میں ہے:’’اُن کا معمولی عمل تمہارے عمر بھر کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔(أحمد۔فضائل الصحابۃ۱؍۵۷)
جمہور علماء کرام کا ماننا ہے کہ فضل صحابیت کے مقابل کسی کا کوئی عمل نہیں پہنچ سکتا، اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے نبیﷺ کو دیکھا ہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنہوں نے ابتداء میں نبیﷺ کی مدافعت کی، آپﷺ کی طرف ہجرت اور نصرت میں سبقت لے گئے ، یا جنہوں نے شریعت مطہرہ کو آپ ﷺ سے سیکھا اور سینے میں محفوظ کیااور اُسے آپﷺ کے بعد آنے والے لوگوں تک پہنچایا، تو ایسے صحابہؓ کا کوئی مد مقابل نہیں، کیونکہ اُن کے بتائے ہوئے طریقے پر لوگ چلتے رہے، اور لوگوں کے اس عمل کا ثواب انہیں بھی برابر ملتا رہا، جس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔(فتح الباری ۷؍۷)
امام أحمد بن حنبلؒ صحابہؓ کے متعلق عقیدے میں لکھتے ہیں: ادنیٰ صحابی افضل ہے اُس صدی کے لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو نہیں دیکھا،اگر چہ اُن لوگوں نے تمام أعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کی ہو۔(شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائی۱؍۱۶۰) امام نوویؒ کہتے ہیں: صحبت رسول ﷺ اگر چہ ایک لحظہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو، اس کی فضیلت کے برابرکوئی عمل نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اس مرتبہ تک کسی چیز کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے، اور فضائل کو قیاسا اختیار نہیں کیا جاتا، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرتا ہے۔(مسلم بشرح النووی: ۱۶؍۹۳)
اسی طرح اللہ عزوجل جو دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہے، اس نے صحابہؓ کے باطن کی طہارت اور تزکیہ بیان کردیا ہے ، جیسے اللہ کاقول: (فعلم ما في قلوبہم) اور ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکر: (لقد تّاب اللہ علی النبي والمہاجرین والأنصار) اور اللہ کی رضا وحصول خوشنودی کا بیان: (لقد رضي اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبہم فأ نزل السکینۃ علیہم وأثٰبہم فتحا قریبا) الخ ۔ یہ سب ان کی خصوصیت پہ دال ہیں، ان کے بعد آنے والوں کے لئے کہاں ایسی تزکیات ملیں گی؟
لیکن کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ’’بعض روایات اوپر ذکر کی گئی روایتوں کے خلاف ہیں جیسے نبیﷺ کا فرمان:( ابو ثعلبہؓ حدیث کے راوی ہیں):’’تأتي أیام للعامل فیہن أجر خمسین‘‘ قیل: منہم أو منا یا رسول اللہ؟ قال: ’’بل منہم‘‘ (ابوداؤد:۴۳۴۱، وصححہ الألباني)ایسا وقت آئے گا کہ ایک عمل کرنے والے کو ۵۰ لوگوں کے برابر اجر ملے گا، آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ وہ ۵۰ لوگ ہمارے برابرہونگے یا ہمارے علاوہ؟ آپ نے فرمایا:تم میں سے ۵۰ لوگوں کے برابر۔ 
اسی طرح ابو جمعہؓ روایت کرتے ہیں کہ أبو عبیدہؓ نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول!ہم آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام لائے، آپﷺ کے ساتھ جہاد کیا ، (کیا اس کے باوجود) ہم سے بہتر بھی کوئی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: قوم یکونون من بعدکم ےؤمنون بي ولم یرونی(أحمد:۴؍۱۰۶) تمہارے بعدایک ایسی قوم ہوگی جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائے گی۔
مذکورہ احادیث کے ما بین تطبیق کی مختلف وجہیں :
پہلی وجہ: حدیث( للعامل فیہن أجر خمسین) افضلیت پر دلالت نہیں کرتی، محض بعض اعمال پر اجر وثواب کا اضافہ مطلق افضلیت کے لئے نا کافی ثبوت ہے۔
دوسری وجہ: مفضول کے اندرچند ایسی فضیلت اور خصوصیات پائی جا سکتی ہیں جو افضل کے پاس نہ ہو، لیکن مجموعی طور پہ مفضول افضل کے برابر نہیں ہوسکتا۔
تیسری وجہ: یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ افضلیت دونوں کے ما بین اکٹھی ہو نے کا امکان ہے،اور وہ عام مسلمانوں کے بیچ مشترک عبادتوں میں ہوسکتا ہے، اور کسی کے عمل کو بعض صحابہؓ پر جزوی افضلیت دینے کا امکان موجود ہے۔ لیکن صحابۂ کرام جن خصوصیات کے حامل ہیں اور جو ان کی کامرانی کا سبب بنا ، ان میں نمایاں وصف اس محترم و مشرف ہستی ﷺ کے روئے انور کا دیدار ہے، جو سب پر بھاری ہے، کوئی کتنا بھی عمل کر لے ، چاہے ان کے برابر بھی عمل کر لے مگر ان کے مثل نہیں ہوسکتا۔(الصواعق المحرقۃ للہیثمی: ص:۳۲۱)
چوتھی وجہ: ابو جمعۃؓ کی حدیث کے لفظ پر سارے راوی متفق نہیں، حتی کہ بعض نے ’الخیرےۃ‘ کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا ہے، اور بعض نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے: قلنا یا رسول اللہ ہل من قوم أعظم منا أجرا؟أخرجہ الطبرانيہم نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ! کیاکوئی قوم ایسی بھی ہے جو اجر میں ہم سے بڑھ کر ہو۔ 
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں:اس روایت کی سندیں زیادہ قوی ہیں بہ نسبت ابو جمعہ کی روایت ، جو ابو ثعلبہؓ کی روایت کے موافق ہے اور اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔
اس اخیر فقرہ میں یہ تنبیہ مناسب ہے کہ جمہور علماء کا جو صحابہؓ کے سلسلے میں اختلاف ہے ، وہ سینئر اور بڑے صحابہ جیسے خلفاء اربعہ، عشرۂ مبشرہ، اہل بیعت عقبہ، اہل بدر، بیعت رضوان اور اہل تبوک وغیرہ۔۔۔۔۔۔ اس اختلاف میں شامل نہیں ہیں، اختلاف صرف ان صحابہؓ کے بارے میں ہے جنہوں نے محض آپ ﷺ کو صرف دیکھا ہے۔ اسی لئے امام ابن عبد البر ؒ نے اہل بدر اور اہل حدیبیہ کو اس نزاع سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔(فتح الباری ۷؍۷)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں