اتوار، 21 جولائی، 2013

أم المؤمنین عائشہؓ کو گالی دینے کا حکم

پنجم: أم المؤمنین عائشہؓ کو گالی دینے کا حکم: 
أم المؤمنین عائشۃؓ کو گالی دینے والا کافر ہے، علماء کا اس پر اجماع ہے کیونکہ اللہ نے ان کی برأت میں آیت نازل کی۔ قاضی ابو یعلیٰ کہتے ہیں: أم المؤمنین عائشۃؓ پر تہمت تراشی کرنے والا کافر ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، اللہ نے ان کی برأت بیان کی ہے۔ اس پر اجماع ہے، اور کئی ائمہ نے صراحت کے ساتھ اس مسئلہ پر رائے دی ہے، امام مالک ؒ کہتے ہیں: جس نے ابو بکرؓ کو گالی دی، اُسے کوڑے لگائے جائیں گے، جس نے عائشۃؓ کو گالی دی اُسے قتل کر دیا جائے گا، پوچھا گیا : ایسا کیوں؟ فرمایا: جس نے عائشۃؓ پر تہمت لگائی اُس نے قرآن کی مخالفت کی(الصارم المسلول: ص: ۵۶۵)
ابو شعبان اپنی روایت میں امام مالکؒ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: اس لئے کہ اللہ نے قرآن میں فر ما دیا ہے:( یعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ أبداان کنتم مؤمنین) اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مؤمن ہو۔تو جس نے دوبارہ تہمت لگائی یا گالی دی، وہ کافر ہوگیا۔ (الشفا:۲؍۱۱۰۹، سورہ نور:۱۷)
أم المومنین پرتہمت تراشی یا گالی دینے والا کافر ہے، اس پر واضح دلائل موجود ہیں، چند دلائل ملاحظہ کریں: 
اول: امام مالک ؒ نے استدلال کیا ہے کہ اُن پر تہمت تراشی قرآن کی تکذیب ہے ، اور قرآن کو جھٹلانے والا کافر ہے۔ حافظ ابن کثیر ؒ کہتے ہیں: تمام ممالک کے علماء کا اجماع ہے کہ جس نے عائشہؓ پر تہمت اور پھر برأت کا ذکر جو قرآن میں وارد ہوا ہے، اب اس کے بعد انہیں کوئی گالی دے یا تہمت لگائے تو وہ کافر ہے، اس لئے کہ وہ قرآن کا دشمن ہے(تفسیر ابن کثیر: ۳؍۲۷۶) 
علامہ ابن حزمؒ امام مالکؒ کے قول پر تعلیقالکھتے ہیں: یہاں امام مالکؒ کا قول صحیح ہے ، عائشہؓ پر تہمت یا گالی کھلا ارتداد ہے ، اللہ کے آیت کی تکذیب ہے، جس میں ان کی برأت کا ذکر ہے(المحلیٰ: ۱۱؍۴۱۵)
د وم: متعدد قرآنی وجوہ سے یہ ثابت ہے کہ اُن کو گالی دینے سے نبیﷺ کی تنقیص اور انہیں ایذاء پہنچانے کے مترادف ہے، ملاحظہ فرمائیں: 
*عبد اللہ بن عباسؓ ذیل کی دو آیتوں کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں:
(۱) (والذین یرمون المحصنٰت ثم لم یأتوا بأربعۃ شہداء)(النور :۴)جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ لے کر نہیں آتے۔(۲)( انَّ الذین یرمون المحصنٰت الغافلات المؤمنات)(النور:۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں۔ابن عباسؓ دوسری آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ ام امؤمنین عائشہؓ اور دیگر ازواج مطہرات کی شان میں مخصوص ہے، آیت مبہم ہے ،توبہ کا ذکر نہیں ہے، جب کہ عام مؤمنہ خاتون پر تہمت تراشی کرنے والے کیلئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی راہ فراہم کی ہے، مجلس میں اس خوبصورت تفسیر پر ایک آدمی نے ارادہ کیا کہ جاکر ان کے سر کو بوسہ دے۔( تفسیر ابن جریر۱۸؍۸۳)
ابن عباسؓ نے یہاں واضح کردیا کہ یہ آیت ام المؤمنین عائشہؓ ودیگر أمہات المؤمنین پر تہمت تراشی کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، ازواج مطہرات میں کسی پر بھی تہمت تراشی نبیﷺ پر طعن اور عیب جوئی کے مترادف ہے، اس لئے کہ بیوی پر بدکاری کا الزام شوہر اور اس کے بچوں کے لئے تکلیف دہ ہے ، اُس گھر کی نسبت دیوثیت اور آوارگی سے کی جانے لگتی ہے،اور خدا نخواستہ کسی بیوی نے اگر واقعی میں زنا کرلیا ، تو اس کا شوہر شدید اذیت سے دوچار ہوجاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اشخاص کو خود متہم ہونے کے بعدایسی ذلت محسوس نہ ہوتی جو اپنے اہل کے اتہام کے بعد محسوس ہوتی ہے۔(الصارم المسلول:ص:۴۵)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو ایذاء دینا کفر ہے، اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
امام قرطبیؒ اس آیت( یعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ أبدا) کے متعلق لکھتے ہیں: یہ آیت ام المؤمنین عائشہؓ کے بارے میں نازل ہوئی ، جس طرح کی تہمت تراشی اُن پر کی گئی اور جو حکم نازل ہوا، وہی حکم بقیہ ازواج مطہرات پر تہمت لگانے سے نافذ ہوگا۔اوریہ سب نبیﷺ کیلئے باعث اذیت ہے، اس لئے کہ ان کی عزت اُن کے اہل وعیال سے بھی ہے،سو جو نبیﷺ کی فیملی میں کسی پر بھی تہمت لگائے وہ کافر ہے۔ (القرطبی: ۲؍۱۳۶۔۱۳۷)
رسول اللہ کو اذیت کیسے پہنچتی ہے؟ بخاری و مسلم کی نقل کردہ حدیث افک دیکھئے:ام المؤمنین عائشۃؓ کہتی ہیں کہ واقعۂ افک کے بعد نبی ﷺ منبرپرکھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن أبی سلول (واقع�ۂافک کا منافق سرغنہ) کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: یا معشر المسلمین ! من یعذرنی من رجل قد بلغنی أذاہ فی أہل بیتي۔۔ اے مسلمانوں کی جماعت ! کون ہے جو مجھے اُس آدمی(منافق) سے انصاف دلائے، اور اگر میں اُس کا فیصلہ کردوں تو کون ہے جو لوگوں کے سامنے میرے عذر کو پیش کرے گااُس تکلیف پر جو مجھے اور میرے گھر والوں کو پہنچی ہے!!
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو شدید تکلیف لاحق ہوئی تھی، تبھی آپ ﷺ نے انصاف طلب کیا ۔ اُس وقت بعض مسلمانوں نے بلا رو رعایت کہا: ہمیں حکم دیجئے یا رسول اللہ! ان کی گردنیں اُڑادیں گے ، آپ کو انصاف دلائیں گے اور معذور ثابت کریں گے، بس آپ ہمیں حکم دیں۔ اور اللہ کے نبیﷺ نے سعدؓ کو نہیں روکا تھا جب انہوں نے ان کی گردنیں اُڑانے کا اشارہ کیا۔(الصارم المسلول: ص۴۷)
شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اکرمﷺ کی عفت مآب بیوی اور مسلمانوں کی ماں (عائشہؓ)پر جو تہمت تراشی کرے ،تو وہ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن أبی سلول کے قبیل سے ہے، نبی اکرمﷺ نے زبان حال سے کہہ ہی دیا: اے مسلمانوں کی جماعت! کون مجھے اُس سے انصاف دلائے گا جس نے مجھے میرے اہل کے سلسلے میں اذیت پہنچائی( ان الذین ےؤذون اللہ و رسولہ، لعنہم اللہ في الدنیا والآخرۃوأعد لہم عذابا مہینا، والذین ےؤذون المؤمنین والمؤمنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بہتانا واثما مبینا) (الأحزاب: ۵۷۔۵۸)(ترجمہ:جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو ایذادیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے۔ اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو اُن سے سر زد ہوا ، وہ (بڑے ہی)بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اُٹھاتے ہیں)کہاں گئے اس دین کے انصار واعوان، جو کہتے ہیں کہ ہم انصاف دلائیں گے اے اللہ کے رسول! (رسالۃ الرد علی الرافضۃ: ۲۵)
حضرت عائشہؓ کو مطعون کرنا ایک دوسرے پہلو سے رسول اللہ ﷺ کی تنقیص ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: الخبیثات للخبیثین بدکار عورتیں بدکار مردوں کے لئے ہیں(النور: ۲۶)۔
ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے: اس کا مطلب ہے: کہ اللہ تعالیٰ نے عائشہؓ کو اللہ کے رسول کی بیوی کی حیثیت سے پسند فرمایا کہ وہ ایک معزز اور با عفت خاتون ہیں۔ اور نبیﷺ کا پوری بشریت میں پاکبازی اور عفت و طہارت میں کوئی ثانی نہیں، اگر أم المؤمنین عائشہؓ(العیاذ باللہ) خبیث ہوتیں تو وہ کسی بھی ناحیہ سے رسول اللہ کے قابل نہیں ہوتیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا:( أولٰئک مُبرء ون مما یقولون) یعنی وہ لوگ بری ہیں اُس چیز سے جس کا دشمن اور تہمت تراش الزام لگاتے ہیں(ابن کثیر: ۳؍۲۷۸)۔
ششم: دیگرأمہات المؤمنین کو گالی دینے کا حکم:
أم المؤمنین عائشہؓ کے علاوہ بقیہ أمہات المؤمنین کو گالی دینے یا تہمت لگانے کے حکم میں علماء مختلف فیہ ہیں، لیکن جمہور علماء ایسے لوگوں کو بھی کافر قرار دیتے ہیں جو اُن میں سے کسی کو بھی گالی دے یااُن پر تہمت لگائے۔اس لئے کہ وہ سب رسول اللہ کی بیویاں ہیں، اور اللہ کا غضب ہے ایسے لوگوں پر،اس معاملے میں تمام بیویاں برابر ہیں(البدایۃ والنہایۃ۸؍۹۵) اسی طرح ان کو گالی دینے سے اللہ کے نبیﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے اور آپ ﷺ کی تنقیص ہوتی ہے۔(الشفا: ۲؍۱۱۱۳)
یہاں أم امؤمنین عائشہؓ کو گالی دینے یا تہمت تراشی کا حکم واضح کردیا گیا ہے، اسی طرح بقیہ امہات المؤمنین کو گالی دینے کا حکم بھی بیان کیا گیا، اگر گالی یا تہمت کی ان شکلوں کے علاوہ کوئی عیب و عادت وغیرہ کی شکل میں گالی دے تو اُس کا حکم عام صحابہؓ کے حکم کی طرح ہوگا، جیسا کے پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں