اتوار، 21 جولائی، 2013

صحابہؓ کے باہمی جھگڑوں پر توقف

صحابہؓ کے باہمی جھگڑوں پر توقف
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: واذا ذکر أصحابي فامسکوا،واذا ذکرالنجوم فامسکوا،واذا ذکرالقدرفامسکوا(أخرجہ الطبراني، علامہ البانی نے قوی قرار دیا ہے السلسلۃ الصحیحہ۱؍۳۴)جب میرے صحابہؓ کا ذکر(جھگڑوں میں) ہو، تو وہاں خاموش ہوجاؤ، جب ستاروں کا تذکرہ ہو، توقف اختیار کر لو، جب تقدیر کی گفتگو ہو تو وہاں رُک جاؤ۔
اسی لئے اہل سنت کا منہج ہے کہ صحابہؓ کے ہفوات ا ور لغزشوں کی ٹوہ میں نہ پڑا جائے ، اور ان کے باہمی اختلافات میں غور و خوض سے پر ہیز کیا جائے، أبو نعیم ؒ کہتے ہیں: صحابۂ رسولﷺ کی لغزشوں پر توقف اور ان کے محاسن ومناقب کی نشر واشاعت ، ان کے معاملات کی صفائی، یہ سب مؤمنین کی نشانیاں ہیں جنہوں نے احسان کے ساتھ اتباع کی، ان کی مدح اللہ نے اس طرح بیان کی: (والذین جآء و من بعدہم یقولون ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان )(الحشر: ۱۰)اور(ان کے لئے)جو ان کے بعد آئیں کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔ گزشتہ حدیث پر تعلیقا مزید کہتے ہیں: کہ امت کو صحابہؓ کے فضائل و محاسن کے بیان سے نہیں روکا ہے، بل کہ اُن کے اُن کاموں کو بیان کرنے سے روکا گیاہے جو غیظ و غضب کی حالت میں اُن سے صادر ہوئے ہوں۔(الامامۃ: ۳۴۷)
حدیث شریف کے اندر جس چیز پر توقف اختیار کرنے اور غور و خوض سے رکنے کو کہا گیا ہے ، وہ صحابہؓ کے ما بین ہونے والے اختلافات اور لڑائیاں ہیں، ان چیزوں کی تفصیلی چھان بین ، عوام الناس میں اس کا پرچار پرسار،اور کسی ایک جماعت کو حق و ناحق کا تمغہ دینے سے پرہیز مراد ہے۔(منہج کتابۃ التاریخ الاسلامی: ص:۲۲۷)
ہم لوگ ان چیزوں کا حکم نہیں دئے گئے ہیں، بلکہ اُن کے لئے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اُن سے محبت اور ان کی خوبیوں و فضیلتوں کو پھیلانے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن کوئی بدعتی اُٹھ کھڑا ہو اور صحابہؓ کو باطل کے ذریعے عیب لگائے، اُس وقت صحابہؓ کے حق میں دفاع واجب ہے، اور علم و عدل کے ذریعے ان کے جھوٹے دعوؤں کی پول کھولی جائے۔(منہاج السنۃ: ۶؍۲۵۴)
آج ہمیں اسی کی ضرورت ہے جب کہ امت مسلمہ اپنے جامعات ومدارس کے نصاب و منہج کے فتنے میں گرفتار ہے، موضوعی اور علمی منہج کے نام پر صحابہؓ کی باہمی لڑائیوں میں باطل اصولوں کے ذریعے اس قدر غور وخوض ہوتا ہے کہ ہمیں اُن آداب کی پرواہ نہیں رہتی جسے ہمارے رب اور رسول ﷺ نے سکھایا ہے۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ متعدی بیماری بعض اسلام پسندوں کو بھی لگ چکی ہے،جنہوں نے صحابہؓ کے ما بین رونما فتنوں کے متعلق رطب و یابس اور نمک و مرچ سے لیس بے سروپا روایتوں کا ڈھیر لگادیا،مستند ائمۂ کرام کے اقوال و تحقیقات سے منہ پھیر کر غیر معتمد روایتوں پر تکیہ کرکے احکامات مستنبط کر ڈالے، اس لئے میں نے ضرورت محسوس کی کہ صحابہؓ کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے رہنما خطوط مرتب کر دئے جائیں، خصوصا جب وہ صحابہؓ کے باہمی جھگڑوں اور جنگوں کا بحث و مطالعہ کریں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں