اتوار، 21 جولائی، 2013

گالی کے لوازمات

گالی کے لوازمات
صحابۂ کرام کی شان میں گالی یا طعن و تشنیع کے خطرات کو بھانپتے ہوئے سلف صالحینؒ نے بیداری کا ثبوت دیا اور امت کو گالی گلوچ کی رسیا و دشنام طرازجماعتوں کے مقاصد سے خبردار کیا، وہ جانتے تھے کہ یہ گالیاں ایسے باطل لوازم ساتھ لائیں گی جو دین کے أصولوں سے پنجہ آزمائی کر رہی ہوں گی۔بعض سلفؒ نے اس سلسلے میں کم گفتگو کی ہے، مگر جامع ہے، جس کو میں نے مقدمہ میں ذکر کیا ہے، پھر اُن گالیوں سے جو نتائج اور اثرات پیدا ہوتے ہیں اُن پر گفتگو کی ہے، اور یہاں ان شاء اللہ گالی کی پہلی اور دوسری قسم(جس میں تمام یا اکثر صحابہؓ کو گالی دینے کا حکم کفر یا فسق بیان کیا گیا ہے، یا ان میں مشہور صحابہؓ کی عدالت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا گیا ہوجیسے خلفاء راشدین وغیرہ ) کے ردّ میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
امام مالکؒ دشنام طرازوں کے بارے میں کہتے ہیں:’’یہ قومیں نبی اکرمﷺ کی شان میں کھلم کھلاگستاخی کرنا چاہتی تھیں جب یہ ممکن نہ ہوا، تو انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کو مطعون کرنا شروع کیا، یہاں تک کہا گیا، کہ وہ (العیاذ باللہ)بُرے ہیں، اگر وہ نیک ہوتے تو ان کے ساتھی بھی نیک ہوتے‘‘۔(الصارم المسلول:۵۸۰) 
امام أحمد ؒ نے فرمایا:’’جب تم کسی آدمی کو صحابہؓ کی بُرائی کرتے دیکھو ، تواس کے اسلام کو غیر معیاری قرار دے دو‘‘۔(البدایہ والنہایہ: ۸؍۱۴۲)
أبو زُرعہ الرازیؒ کہتے ہیں:’’ جب تم کسی کو صحابئ رسول کی تنقیص (خامی)کرتے ہوئے دیکھو تو جان لو وہ شخص زندیق ہے اس لئے کہ رسول برحق ہیں، قرآن بر حق ہے ، اور اس قرآن و سنت کو ہم تک صحابۂ کرام نے ہی پہنچایا،وہ لوگ ہمارے گواہوں(صحابہ) کو زخمی کردینا چاہتے ہیں تا کہ کتاب و سنت کو باطل ٹھہرا سکیں، جب کہ جرح کے یہ زندیق حقدار ہیں ‘‘(الکفاےۃ: خطیب بغدادی:ص:۹۷ )
امام ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’صحابۂ کرام کے غیظ وغضب کی حالت میں نکلنے والے ہفوات ولغزشوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور جو ان چیزوں کا تعاقب کرتا ہے اس کا دل دین کے متعلق فتنے کا شکار ہے‘‘۔(الامامۃ: ابو نعیم: ص۳۴۴)مزید لکھتے ہیں: اور فتنے کے شکار یہ لوگ اپنی لمبی اور گندی زبانوں کے ذریعے نبیﷺ، آپﷺ کے صحابہؓ اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں نازیبا تبصر ے کرتے ہیں(الامامۃ:ص: ۳۷۶)
علماء امت کی یہ تنبیہ تمام صحابہ کے بارے میں ہے ، امام أحمدؒ کا قول: ’جو کسی بھی صحابی کو برائی سے یاد کرے‘ امام أبو زرعہؒ کا قول: ’جو کسی صحابی کی خامی تلاش کرے‘ وغیرہ۔ جب علماء نے محض عیب اور خامی و برائی تلاش کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے تو پھر دوسری گالیاں، تہمت تراشیاں اور تکفیر کا کیا حال وانجام ہوگا؟اور اُن کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو اکثر صحابہؓ کو گالیاں دیتے ہیں؟
محترم قارئین! یہاں گالی کے بعض لوازمات کی توضیح ملاحظہ فرمائیں: 
اول: جو لوگ اکثر صحابہؓ پر کفر ،فسق یا ارتداد کا الزام عائد کرتے ہیں وہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو مشکوک بناتے ہیں، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین پر طعن منقول (قرآن وسنت) پر طعن کے مترادف ہے، پھر ایسی کتاب جسے ہم تک پہنچانے والے العیاذ باللہ فاسق اور مرتد ہوں ، اس پر کیسے اعتماد کریں؟ اور اسی بنیاد پر بعض اہل بدعت نے صحابہ کو گالی دیتے ہوئے اُن پر تحریف قرآن کا الزام لگایا ہے،اسی طرح احادیث نبویہ میں تحریف کا الزام اُن پر عائد کرتے ہیں۔جب صحابۂ کرام کی عدالت وثقاہت کو متہم کیا جائے گا، تو ساری سندیں مقطوع ومرسل کا روپ لے لیں گی اور تمام حدیثیں بے وقعت و بے حجت ہو کر رہ جائیں گی،ان گالی دینے والوں میں ایک تعداد قرآن پر ایمان رکھنے کے زعم میں بھی مبتلا ہے، ایسے لوگوں سے ہم کہتے ہیں: کہ قرآن پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اُس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے،اور اُس میں ہے کہ صحابۂ کرامؓ امت میں سب سے افضل ہیں، اللہ اُن سے راضی ہوا ہے ، وہ کبھی اُنہیں رسوا نہیں کرے گا۔۔وغیرہ،تو جو ان باتوں کی تصدیق نہیں کرتا ہے، وہ قرآن کا منکر ہے اور اپنے دعوے میں جھوٹا۔
دوم: بعض لعینوں کا کہنا ہے کہ یہ امت ۔العیاذ باللہ۔بدی کی خوگر ہے جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے، اس امت کے سابقین بد ترین لوگ ہیں، پہلی صدی میں اس امت کی اکثریت کافر اور فاسق تھی، اور ان کا زمانہ بد ترین زمانہ تھا۔(الصارم المسلول،ص: ۵۸۷)کتنی بڑی(نازیبا) بات ہے جو اپنے منہ سے نکالتے ہیں!!۔
سوم: ان گستاخانہ کلمات کے سبب دو میں سے کوئی ایک چیز لازم آتی ہے: یا تووہ لوگ اللہ کی نسبت جہل کی طرف کرتے ہیں جن چیزوں سے اُسے متصف کرتے ہیں، یا اُن نصوص سے کھلواڑ کرتے ہیں جن میں صحابہؓ کی فضل و ثناء کا ذکر ہے،پس اگر اُن کے قول کے مطابق اللہ جاہل ہے تو وہ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لئے کہ اللہ نے صحابہؓ کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے، کیایہ جہل ہے؟ جہل اللہ کے لئے محال ہے۔اور اگر اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ صحابہؓ سب کافر ہوجائیں گے پھر اُن سے راضی ہونا اور جنت کا وعدہ کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟اللہ اپنے بندوں سے کھلواڑ نہیں کرتا اور یہ محال ہے۔(اتحاف ذوی النجابۃ لمحمد بن العربی،ص: ۷۵) 
یہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو بھی مطعون کرنا ہے جب کہ اللہ نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے ایسے نیک بندوں کو منتخب کیا جنہوں نے آپ ﷺکے ساتھ جہاد کیا، قوت و بازو بن کرآپ کی مدد کی، اور اللہ نے انہیں سسرالی رشتہ دار بنایا،چنانچہ نبیﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح ذوالنورین عثمان غنیؓ سے کیا، أبو بکرؓ و عمرؓ نے اپنی اپنی دختر ان کا نکاح رسول اللہﷺ سے کیا،بھلا بتائیں کہ اللہ اپنے نبیﷺ کے لئے ایسے مددگاروں اور رشتہ داروں کو کیوں منتخب کرتا ؟ جب کہ اسے خبر تھی کہ یہ کافر ہوجائیں گے؟العیاذ باللہ
چہارم: ۲۳ سال کے مختصر عرصہ میں نبی اکرم ﷺ نے صحابہؓ کی ایسی زبردست تربیت کی ، جو اللہ کے فضل سے تقویٰ و طہارت، اخلاق و ایثاراور اخوت و حمیت میں ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آیا، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺکو تاریخ عالم میں سب سے بڑے مربی کا خطاب ملا۔
لیکن اس کے بر عکس ایک جماعت ایسی ہے جو اسلام اور اس کے نبیﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اسی اسلامی معاشرے میں وہ اسلام اور نبیﷺ کی اُلٹی تصویر پیش کرتی ہے، تربیت و رہنمائی کے میدان میں آپ ﷺ کے ذریعے انجام دئے گئے تاریخ ساز کارناموں کو پل بھر میں ملیا میٹ کردیتی ہے، یہ وہ کارنامے ہیں جن کا سامنا آپ ﷺ کے علاوہ کسی مربی اور مصلح نے نہیں کیا، رسول اللہﷺ کی شان تو سب سے نرالی ہے ، اور آپﷺ کو اللہ نے اسی مقد س مشن پر مامور کیا تھا(الرسول والرسالات للأشقر: ۲۱۲) بعض کم بختوں کا زعم ہے کہ اللہ کے نبیﷺ اپنی دعوت میں کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ مہدی غائب اس مشن میں کامیاب ہونگے، جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں۔(العیاذ باللہ)
فرقۂ امامیہ کہتا ہے: کہ محمدﷺ اپنی بے پناہ کوششوں کے ذریعے صرف تین یا چار لوگوں کو ہی تربیت یافتہ بنا سکے، جو آپﷺ کی وفات کے بعد بھی اسلام پر قائم ودائم رہے، ان کے علاوہ تمام لوگوں نے (العیاذ باللہ) آپﷺ کی وفات کے فورا بعد اسلام سے سارا ناطہ توڑ لیا تھا، اور آپﷺ کی تربیت کا نتیجہ غیر مؤثر رہا۔
یہ زعم و گمان انسانیت کی اصلاح میں محض مایوسی جنم دیتاہے، اسلامی منہج اور اخلاق و تہذیب کے اعلیٰ اصولوں پر بے اعتمادی پیدا کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کے نبیﷺ کی نبوت میں شک کو بڑھاوا دیتا ہے، اس کا مطلب ہوا کہ یہ دین اپنے کامیاب ومستحکم عملی نمونوں اور اصولوں کے باوجود دنیا کے سامنے پیش ہونے کے قابل نہیں تھا!جب کہ اس آفاقی پیغام کے اولین داعی ایک مثالی معاشرے کے بانی تھے، تو آج ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ان کے متبعین اس پیغام کو دنیا کے سامنے کیسے پیش کر سکتے ہیں؟!
نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے بعد اس دعوت کے حاملین مسلمان جب سیدھی راہ پر قائم نہ رہ سکے، اورنبیﷺ سے وفا نہ کر سکے ، صرف چار صحابہؓ ہی صراط مستقیم پر قائم رہے ، تو پھر ہم کیسے اس بات کو مان لیں کہ یہ دین اخلاق کی تعمیر اور تزکےۂ نفوس کے قابل ہے؟ کیسے مان لیں کہ کہ یہ دین بد بختی اور ناکارہ پن سے چھٹکارہ دلا کر انسانیت کی بلند ترین چوٹی پر لا کھڑا کر سکتا ہے؟ ممکن ہے یہ بھی کہا جائے کہ نبیﷺ اگر اپنی نبوت میں سچے ہوتے تو ان کی تعلیمات مؤثر ہوتیں،چنانچہ آپ پائیں گے کہ کوئی صدق دل سے ایمان لایا، یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ ایک بڑی تعداد کے بیچ چند سو ہی اسلام پر ثابت قدم ہیں، پس اگر آپ ﷺ کے صحابہؓ (چند کو چھوڑ کر) منافق ومرتد ہوگئے تھے تو آخر اسلام کو دوام کس نے بخشا، کس نے رسول اللہ ﷺ سے استفادہ کیا؟ اور کیسے آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہوگئے؟؟(صورتان متضادتان لأبی الحسن الندوي ص: ۱۳،۵۳،۵۹)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں