اتوار، 21 جولائی، 2013

عدالت صحابہ کے کتاب و سنت سے دلائل

عدالت صحابہ کے کتاب و سنت سے دلائل
اہل سنت کے نزدیک صحابہ کی عدالت عقیدہ کے قطعی مسائل میں سے یا دین کی قطعیت کے ساتھ معلوم امور میں سے ہے ، اور وہ اس پر قرآن و سنت کی بہت سی دلیلوں سے حجت پکڑ تے ہیں۔
اوّل:قرآن کریم سے دلائل 
پہلی آیت: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (لقد رضي اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبہم فأ نزل السکینۃ علیہم وأثٰبہم فتحا قریبا)(الفتح: ۱۸) یقیناًاللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہوگیاجب کہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کر لیا، اور ان پر اطمینان نازل فرمایااور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس (بیعت رضوان) کے موقع پر ہماری تعداد ۱۴۰۰؍ تھی۔(بخاری۔حدیث نمبر:۴۱۵۴، فتح الباری:۷؍۵۰۷)
یہ آیت واضح طور پہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے ان کے تزکیہء نفس کی شہادت خود دی، ایسا تزکیہ جو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا، ان کے دلوں اور نہاں خانوں کی طہارت اور پاکیزگی کی اس سے بہتر گواہی اور کیا ہوسکتی ہے!رضی اللہ عنہم۔ (جس سے اللہ راضی ہوجائے اس کی موت کفر پر ہو ہی نہیں سکتی، اس لئے کہ اللہ کی رضا اُسی کے لئے ہوتی ہے جس کے بارے میں اُسے پتہ ہے کہ اس بندہ کی موت اسلام پر ہوگی۔الصواعق المحرقۃ: ۳۱۶)
اس کی مزید توثیق صحیح مسلم میں وارد اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لا یدخل النار ان شاء اللہ من أصحاب الشجرۃ أحد، الذین بایعوا تحتہا(حدیث نمبر: ۲۴۹۶) ان شاء اللہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ کی رضا صفت قدیم ہے، اور اللہ اُسی بندے سے راضی ہوتا ہے جس کے بارے میں علم ہوتا ہے، کہ یہ بندہ رضا کی ساریِ شرطیں پوری کردے گا، اور اللہ جس سے راضی ہوجائے اُس سے کبھی ناراض نہیں ہوگا، سو اللہ جس کے بارے میں خبر دے دے کہ اُس سے راضی ہے ،تو وہ جنتی ہے، اگرچہ اللہ کی رضا بندہ کے ایمان اور عمل صالح کے بعد حصے میں آئی ہو۔تو ایسے لوگوں کا ذکر بطور مدح وثناء ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ یہ جانتا ہے کہ بندہ عمل صالح کے بعد ایسے اعمال کرے گا جس سے وہ ناراض ہوگا تو وہ اس زمرہ میں شامل نہیں ہوسکتا۔(الصارم المسلول:ص:۵۷۳)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتلادیا ہے کہ وہ صحابہ کے دلوں کو اچھی طرح جانتا ہے، وہ اُن سے راضی ہوا، اور اُن پر سکینت نازل کی، اس لئے اب کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ صحابیت کے معاملے میں بحث و مباحثہ کرے، یہاں ادنیٰ سا شک بھی حرام ہے‘(الفصل فی الملل و النحل: ۴؍۱۴۸)
دوسری آیت: (محمد رَّسول اللہ والذین معہ أشدآء علی الکفار ، رحمآء بینہم، تراہم رُکعا سجدایبتغون فضلا من اللہ و رضوانا، سیماہم في وجوہہم من اثر السجود ، ذٰلک مثلہم في التوراۃ و مثلہم في الانجیل، کزرع أخرج شطأہ ، فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سوقہ یعجب الزُّرّاع ،لیغیظ بہم الکفار ، وعدَ اللہ الذین اٰ منوا وعملوا الصّٰلحٰت منہم مغفرۃ واجرا عظیما)(الفتح: ۲۹) محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں،تو انہیں دیکھئے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی تلاش میں ہیں، اُن کے چہروں پر ان کا نشان سجدوں کے اثر سے ہے،ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، اُس کھیتی کے مثل جس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اُسے مضبوط کیا،اور وہ موٹا ہوگیا،اور کسانوں کو خوش کرنے لگا، تا کہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، اللہ تعالیٰ نے اُن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے بخشش اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ 
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’مجھے یہ خبر پہنچی کہ جب صحابۂ کرام نے ملک شام فتح کیا، تو عیسائی انہیں دیکھ کر کہنے لگے:’اللہ کی قسم! عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں سے متعلق جو صفات ہمیں پہنچی ہیں، اُن سے یہ لوگ بہتر ہیں‘‘۔ یہ ہے سچی گواہی!اس امت کی عظمت شان کا ذکر سابقہ آسمانی کتابوں میں ہوا ہے اور امت کے افضل ترین اشخاص اصحاب رسولﷺ ہیں۔ اللہ کا فرمان دیکھئے: ذٰلک مثلہم في التوراۃ و مثلہم في الانجیل، کزرع أخرج شطأہ ، فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سوقہ یعجب الزُّرّاع ، (ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، اُس کھیتی کے مثل جس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اُسے مضبوط کیا،اور وہ موٹا ہوگیا،اور کسانوں کو خوش کرنے لگا) اسی طرح صحابۂ کرام نے اپنے وجود سے نبیﷺ کوتوانائی عطا کی، ہر موقع پر آپ ﷺ کی مدد کی،ہر موڑ پر اسلام کو تقویت بخشی، اور نبیﷺ کی مثال کسانوں کے ساتھ اس پودے کی تھی جو دانہ پھاڑ کر باہر نکل رہا تھا، صحابۂ کرام کی بڑھتی ہوئی قوت و شوکت اور اثر ونفوذ کافروں کو غضبناک کررہی تھی۔(الاستیعاب لابن عبد البر۱؍۶) ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ جمہور کے نزدیک یہ تمام صحابہ کا وصف ہے‘‘ (زاد المسیر ۴؍۲۰۴)
تیسری آیت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(للفقراء المہاجرین الذین أخرجوا من دیا رہم ) الیٰ قولہ تعالیٰ (والذین جآءُ و من بعدہم یقولون ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذین آمنوا، ربنا انک رءُ وف رحیم) (الحشر: ۸۔۱۰)ترجمہ: (مال فئی )اُن مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئے گئے ہیں،وہ اللہ کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہیں، اللہ ا ور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی راست باز لوگ ہیں۔اور (اُن کیلئے) جنہوں نے اس گھر میں(یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے، اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اُس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خوداپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو،(بات یہ ہے)کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیاوہی کامیاب ہے۔ اور (اُن کے لئے)جو اُن کے بعد آئیں جو کہیں گے :اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے،اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب!بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ بالا آیات میں مال فئے کے مستحقین کی صفات بیان کر رہا ہے، ان کی تین قسمیں ہیں: (۱)للفقراء المہاجرینمہاجر فقراء۔ (۲)والذین تبوَّءُ والدار والایمان من قبلہماور (اُن کیلئے) جنہوں نے اس گھر میں(یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے(انصار مدینہ)۔(۳) والذین جآءُ و من بعدہم اور (اُن کے لئے)جو اُن کے بعد آئیں (یعنی صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اہل ایمان)۔
اس آیت سے امام مالک رحمہ اللہ کا نرالا استدلال دیکھئے: ’جو صحابہ کو گالی دے ،اس کے لئے مال فئے میں کوئی حصہ نہیں،اللہ نے جن کی تعریف بیان کی ہے وہ اُن پر صادق نہیں آتی، وہ اپنے سابقین کے لئے مغفرت طلب نہیں کرتے جیسا کہ آیت میں وارد ہے:
(ربنااغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان)۔
سعد بن أبی وقاصؓ کا قول ہے: ’’لوگ تین زمروں میں منقسم ہیں، دوزمرے پُر ہو چکے ہیں، تیسرا باقی ہے، اور بہتر ہوگا کہ تم اپنے کو تیسرے زمرے میں شامل کرلو، پھر یہ آیتیں پڑھیں: للفقراء المہاجرین یہ زمرہ پُر ہوچکا ہے، والذین تبوَّءُ وا الدَّارَ والایمانَ من قبلہم اس سے انصار مراد ہیں، اور یہ دوسرا زمرہ بھی پُر ہوچکا ہے، والذین جآءُ و من بعدہم یہ زمرہ باقی ہے، اور اس میں شامل ہونے کی شکل یہ ہے کہ تم اُن (صحابہؓ) کے لئے مغفرت کی دعا کرو‘‘(الصارم المسلول:ص:۵۷۷ورواہ الحاکم وصححہ۲؍۴۸۴)
اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اصحاب رسولﷺ کے لئے مغفرت طلب کریں، تو لوگوں نے انہیں گالیاں دیں(رواہ مسلم۔کتاب التفسیر۔۲۲؍۳)
ابو نعیم کہتے ہیں: اُس سے بدتر کون ہوگا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتا ہے، اُن کی نافرمانی اور سرکشی پر آمادہ رہتا ہے ! کیا اُسے خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لیں،ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور نرمی سے پیش آئیں، اللہ کا فرمان ہے: (ولو کنتَ فظا غلیظ القلب لانفضوامن حولک فاعف عنہم واستغفر لہم وشاورہم في الأمر)(آل عمران:۱۵۹) اگر آپﷺ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، اس لئے آپﷺ ان کے ساتھ عفو کا معاملہ کریں، ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں، اور معاملات میں اُن سے مشورہ کرتے رہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: (واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین) (الشعراء:۲۱۵)جو ایمان لائیں اور آپ کی تابعداری کریں اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ تو جو صحابہؓ کو گالی دے، اُن سے بغض و عناد رکھے، ان کے بعض اجتہادات اور باہمی جنگوں کی(محض بدنام کرنے کیلئے) غلط تعبیر کرے۔ ایسا شخص اللہ کے احکامات اور وصیتوں سے کھلواڑ کرتا ہے، وہ نبیﷺ، صحابہؓ اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں بد زبانی کر کے اپنی بد باطنی کا اظہار کرتا ہے‘‘(الامامۃ لأبی نعیم،ص:۳۷۵)
تابعی مجاہدؒ ، ابن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: محمدﷺ کے صحابہ کو گالی مت دو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے استغفار کا حکم دیا ہے، اور اللہ جانتا تھا کہ یہ باہم دست و گریباں ہوں گے(الصارم المسلول:۵۷۴)
چوتھی آیت: اللہ تعالیٰ کا قول: (والسابقون الأوَّلون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ و أعدَّ لہم جنات تجري تحتہا الأنہار خالدین فیہا أبدا، ذٰلک الفوز العظیم)(التوبۃ: ۱۰۰) ترجمہ:اور جومہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں، اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ اُن سب سے راضی ہوا،اور وہ سب اس سے راضی ہوئے،اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ 
امام ابن تیمیہؓ نے لکھا ہے:’’اللہ تعالیٰ سابقین سے بغیر احسان کی شرط کے راضی ہو،اور ان کے پیرو کاروں سے اُسی وقت راضی ہوگا جب وہ اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کریں گے‘‘(الصارم المسلول:۵۷۲)۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو تو خلوص نیت کے ساتھ صحابہؓ کی اتباع کریں اور ان کے لئے استغفار کریں۔
پانچویں آیت:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (لا یستوی منکم من أنفق من قبل الفتح وقاتل،اُو لٰءٓک أعظم درجۃ من الذین أنفقوا من بعدُ و قاتلوا، وکُلا وعد اللہ الحسنیٰ)(الحدید: ۱۰) ترجمہ: تم میں سے جن لوگوں نے فتح(مکہ) سے پہلے فی سبیل اللہ خرچ کیا ہے اور قتال کیا ہے، وہ (دوسروں)کے برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں،جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیا،ہاں! بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے۔ تابعی مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں: الحسنیٰ سے مراد جنت ہے(تفسیر ابن جریر: ۲۷؍۱۲۸)۔
علامہ ابن حزمؓ نے اس آیت سے قطعی استدلال کیا ہے کہ تمام صحابہؓ جنتی ہیں،(وکُلا وعد اللہ الحسنیٰ)۔
چھٹی آیت:(لقد تّاب اللہ علی النبي والمہاجرین والأنصار الذین اتبعوہ في ساعۃ العُسرۃ من بعد ما کاد ےَزیغ قُلوبُ فریق منہم ثمَّ تاب علیہم انَّہ بہم رءُ وف رحیم)(التوبہ: ۱۱۷) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی۔جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا،اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی، بلا شبہ اللہ تعالی ان سب پر بہت ہی شفیق ومہربان ہے۔ غزوۂ تبوک میں خواتین اور بوڑھے معذور وں کے علاوہ تمام صحابہؓ شریک ہوئے تھے، تین صحابی پیچھے رہ گئے تھے ، بعدمیں ان کی توبہ اللہ نے قبول کی اور آیت نازل فرمائی۔ 
دوم: سنت سے دلائل
پہلی حدیث: عن أبی سعید ،قال: کان بین خالد بن الولید وبین عبد الرحمٰن بن عوف شيء،فسبہ خالد، فقال رسول اللہ ﷺ :’’ لاتسبوا أحدا من أصحابيفانّ أحدکم لو أنفق مثل أحد ذھبا ما أدرک مُدّ أحدہم ولا نصیفہ(رواہ البخاری ۳۶۷۳، و مسلم ۲۵۴۱)ترجمہ:ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف کے ما بین کچھ بات ہوگئی تھی، جس پر خالد بن ولید نے انہیں بُرا بھلا کہہ دیا، اللہ کے نبیﷺ یہ سُن کر انہیں ڈانٹا:’’میرے کسی بھی ساتھی کو گالی مت دو،اگر تم میں سے کوئی اُحد(پہاڑ) کے برابربھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے تب بھی ان کے ایک یا آدھے مُدکے برابر نہیں پہنچ سکتا۔ 
علامہ ابن تیمیہ الصارم المسلول میں لکھتے ہیں: ’’اسی طرح امام أحمدؒ نے بھی کہا ہے: جس کسی نے نبی ﷺ کی صحبت بحالت ایمان ایک سال، ایک مہینہ، ایک دن اختیار کی ہو، یا ایمان کی حالت میں محض دیکھا ہو، وہ صحابی ہے‘‘۔
ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ نبیﷺ نے خالد بن ولید کو کیوں منع کیا کہ وہ صحابہؓ کو گالی نہ دیں،جب کہ خالد بھی صحابی ہیں۔ اور فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اُحد(پہاڑ) کے برابربھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے تب بھی ان کے ایک یا آدھے مُدکے برابر نہیں پہنچ سکتا؟ اس کا جواب ہے: کہ عبد الرحمٰن بن عوفؓ سابقین اولین میں سے ہیں، اور ایسے وقت میں یہ آپﷺ کے ساتھ تھے جب خالد بن ولید مسلمانوں کے دشمن تھے۔ عبد الرحمٰن بن عوف اور اُن کے ساتھیوں نے صلح حدیبیہ سے قبل خوب مال خرچ کیا اورلڑائیوں میں دل وجان سے شریک ہوئے، اور اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ کیا،خالد بن ولید اور ان کے ساتھی صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لانے کے سبب عبد الرحمن بن عوف کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے، اسی لئے اللہ کے نبیﷺ نے سابقین کو بُرا بھلا کہنے سے روک دیا تھا۔خالد بن ولیدؓ کی نسبت سابقین کی طرف ایسے ہی ہے جیسے شرف صحبت سے محروم شخص کی نسبت صحابیت کا اعزاز حاصل کرنے والے شخص سے، بلکہ کچھ زیادہ ہی۔(الصارم المسلول: ۵۷۶)
دوسری حدیث: اللہ کے رسول ﷺ نے عمر فاروقؓ سے فرمایا: وما یدریک ، لعل اللہ اطلع علیٰ أھل بدر، فقال: اعملواما شئتم فقد غفرت لکم(رواہ البخاری ومسلم) تمہیں کیا معلوم ! اللہ تعالیٰ بدری صحابہ پر نوازشیں کرتا ہے،کہتا ہے: جاؤ، جو من میں آئے کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ (اعملوا) امر کا صیغہ تکریم کے لئے وارد ہوا ہے، اور اس سے مراد ہے،کہ بدری صحابہ جو بھی عمل کریں ، ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگااس لئے کہ اللہ نے اُن سے سچا وعدہ کر لیا ہے۔ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اُن کے بُرے اعمال بخشے بخشائے ہیں، گویا ان سے سرزد ہی نہیں ہوئے(معرفۃ الخصال المکفرۃلابن حجر:۳۱)
امام نوویؒ کا کہنا ہے:’علماء کہتے ہیں کہ مغفرت سے مراد اُخروی مغفرت ہے، اگر دنیا میں ان پر حد واجب ہوجائے تو اُن پر نافذ کیا جائے گا،قاضی عیاض نے حد کی نفاذ پر اجماع قرار دیا ہے۔عمرؓ نے قدامہ بن مظعونؓاور دوسرے بدری صحابہ پر حد نافذ کی، نبیﷺ نے مسطحؓ پر کوڑے برسائے جب کہ وہ بدری صحابی ہیں‘۔(مسلم مع شرح النووی۱۶؍۵۶) 
علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں: ’’واللہ أعلم! یہ خطاب ایک ایسی قوم کے لئے ہے جس کے بارے میں اللہ جانتا تھا کہ یہ اپنے دین سے ہرگز نہ پھریں گے،اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوگا،ا ن سے گناہ سر زد ہونگے،لیکن اس پر اصرار نہیں ہوگا، بلکہ انہیں توبۂ نصوح کی توفیق میسر ہوگی، ان کے استغفار اور نیکیاں گناہوں کو مٹا دیں گی،اور یہ خصوصیت صرف انہی کو حاصل ہے،جس کی بنا پر انہیں مغفرت کا پروانہ حاصل ہوا۔مغفرت کئی اسباب کی بناء پر اُن کے حصہ میں آئی، اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ مغفرت پر بھروسہ کر کے فرائض چھوڑ بیٹھتے، یہ پروانہ فرائض وواجبات کی پیہم ادائیگی پر ملا، پروانۂ مغفرت ملنے کے بعد یہ کہنا محال ہوگا کہ انہیں صوم و صلاۃ، روزہ وحج اور زکاۃ و جہاد کی ضرورت نہیں رہی‘۔
(الفوائد لابن القیم:۱۹)
تیسری حدیث: عن عمران بن الحصینؓ قال، قال رسول اللہﷺ: خیر أمتي قرني ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، قال عمران:فلا أدري، أذکر بعد قرنہ قرنین أو ثلاثا۔ (متفق علیہ) ترجمہ:عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:میری امت کا بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اُس کے بعد آنے والوں کا ہے، پھر اُس کے بعد آنے والوں کا ہے۔راوی حدیث عمرانؓ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو یا تین زمانوں کا ذکر کیا۔
چوتھی حدیث: عن أبی موسیٰ الأشعريؓأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: النجوم أمنۃ للسماء فاذا ذہبت النجوم أتی أہل السماء ما یوعدون، وأنا أمنۃ لأصحابي، فاذا ذہبتُ أنا أتی أصحابيما یوعدون، وأصحابيأمنۃ لأمتي، فاذا ذہب أصحابي أتی أمتيما یوعدون(رواہ مسلم۲۵۳۱) ترجمہ: ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ستارے آسمان کے امین و محافظ ہیں ، جب یہ ستارے(بشمول شمس وقمر)لپیٹ دئے جائیں گے تو آسمان والوں کو وعدہ کے مطابق(قیامت کا)سامنا ہوگا،میں اپنے صحابہؓ کے لئے امین ونگہبان ہوں،جب میں رخصت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہؓ پر وہ چیزیں(اختلافات،فتنے اور آزمائشیں)آئیں گی جن کا ان سے وعدہ کیاگیا ہے، اور جب میرے صحابہؓ نہیں ہونگے تو امت کو وعدہ کے مطابق اُمور درپیش ہونگے(یعنی :مصائب ، مشکلات، شرور و فتن، بدعات و خرافات وغیرہ)۔
پانچویں حدیث: عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ أنّ رسول اللہ ﷺ قال: أکرموا أصحابي فانہم خیارکم (أحمد، نساءي) وفي رواےۃ أخریٰ: احفظوني في أصحابي(ابن ماجہ۲؍۶۴) عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہؓ کی عزت کرو اس لئے کہ وہ تم میں سب سے اچھے ہیں۔ دوسری روایت میں وارد ہے: میری (سنت کی) حفاظت کے لئے میرے صحابہ کو دیکھو(میرے اصحاب کے حوالے سے مجھے بچائے رکھنا)۔
چھٹی حدیث: عن واثلۃؓ یرفعہ : لا تزالون بخیر ما دام فیکم من رأی من رآنيوصحبني، واللہ لا تزالون بخیر ما دام فیکم من رأی من رآنيوصاحبني(ابن أبي شیبۃ ۱۲؍۱۷۸) واثلہؓ اللہ کے نبیﷺ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں: تم اُس وقت تک بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان وہ لوگ ہونگے جنہوں(تابعی) نے میرے صحابہؓ کو دیکھا اور انہوں نے مجھے دیکھا اور میری صحبت اختیار کی، خدا کی قسم! تم لوگ اُس وقت تک برابر بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان صحابہ کو دیکھنے والے لوگ موجود ہونگے، اور صحابہؓ نے مجھے دیکھا اور میری مصاحبت اختیار کی۔
ساتویں حدیث: عن أنسؓ عن رسول اللہ ﷺ : آےۃ الایمان حب الأنصار ، وآےۃ النفاق بغض الأنصار (بخاري ۷؍۱۱۳، مسلم ۱؍۸۵) وقال في الأنصار کذٰلک لا یحبہم الا مؤمن، ولا یبغضہم الا منافق (بخاري ۷؍۱۱۳، مسلم ۱؍۸۵ بروایت بَراءؓ) انسؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بغض و عناد منافق کی نشانی ہے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جواجمالا ان کی فضیلت میں وارد ہیں، تفصیلی احادیث بہت زیادہ ہیں، امام أحمد بن حنبلؒ نے اپنی کتاب ’’فضائل الصحابہ‘‘ (دو جلدوں میں) میں دو ہزار سے زیادہ احادیث و آثار جمع کئے ہیں، اپنے موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے، اس کی تحقیق جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے پروفیسر ڈاکٹر وصی اللہ عباس نے کی ہے۔اور وہیں سے۱۴۰۳ھ میں شائع ہوئی ہے۔
خلاصۂ مبحث
گزشتہ صفحات میں صحابۂ کرام کے مناقب وفضائل کے متعلق جو آیات و احادیث ذکر کی گئی ہیں، ان کا خلا صہ پیش کیا جا رہا ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے ظاہر و باطن کا تزکیہ کر دیا ہے، ظاہر کی وضاحت میں ان کے بلند اخلاق حمیدہ کو بیان کیا ہے:جیسے: کفار پر شدید اور بھاری ہیں لیکن آپس میں رحم وکرم کا معاملہ کرتے ہیں(الفتح:۲۹)، اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور یہی سچے لوگ ہیں (الحشر:۸)، اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خوداپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو(الحشر:۹)۔ لیکن ان کے باطن کا معاملہ اللہ کے ساتھ خاص ہے، وہی تنہا دلوں کے بھید کو جانتا ہے ، صحابہ کا باطن کتنا سچا تھا، ان کی نیت کتنی نیک تھی، مثال کے طور پہ اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پرکھ لیا، اور ان پر سکینت ناز ل کی‘‘(الفتح: ۱۸)، اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں(الحشر:۹)، وہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں(الحشر:۹)، اللہ نے نبیﷺ، مہاجرین اور انصار جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں اپنے نبیﷺ کا ساتھ دیا(التوبہ:۱۱۷)، اللہ تعالیٰ نے ان کی سچی نیت اور توبہ کی بدولت ان کی مغفرت فرمادی، اور توبہ ‘ خالص قلبی عمل ہے۔
۲۔ ظاہری اور باطنی خیر کے حاملین صحابہ کرامؓ اللہ کی توفیق اسکی خوشنودی اور مغفرت کے مستحق ہوئے، اور اللہ نے اُن سے جنت کا وعدہ کیا۔
۳۔ صحابہؓ کی انہی فضیلتوں کے سبب اللہ نے ہمیں ان کے لئے مغفرت کا حکم دیا، اور رسول اکرم ﷺ نے ان کی تکریم، احترام ، ان کے حقوق کی حفاظت اور ان سے محبت کا حکم دیا، اور ہمیں ان کی شان میں گستاخی، بے ادبی اور گالی گلوچ سے روکا ہے۔بلکہ ان سے محبت کو ایمان کی علامت اور ان سے بغض کو نفاق کی نشانی قرار دیا ہے۔
۴۔ ان ساری صفات و دلائل کے مد نظراُن کا دور بہترین دور تھا، وہ امت کے امین تھے ، اور اس کے ساتھ امت پر ان کی اقتداء واجب ہے، بلکہ یہی واحد طریقہ ہے جنت کی طرف لے جانے کا: علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدي(أحمد ۴؍۱۲۶) تم پر میری سنت اور میرے بعد ہدایت یاب خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑے رہنا واجب ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں