اتوار، 21 جولائی، 2013

سبِّ(گالی) صحابہؓ کی قسمیں اور اُن کا حکم

سبِّ(گالی) صحابہؓ کی قسمیں اور اُن کا حکم
اول: جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ کو کافر، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی: 
ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول(قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے، جب کہ قرآن نے صحابہؓ کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے۔’ قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہؓ کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے‘(الرد علی الرافضۃ: ۱۹)تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
صحابہؓ کو گالی دینے کا مطلب نبیﷺ کو ایذاء پہنچانا ہے، اس لئے کہ وہ آپﷺ کے خواص، محبوب اور ساتھی تھے، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی۔ اور نبیﷺ کو تکلیف دینا کفر ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اس قسم کا حکم بیان کیا ہے:’’ جو اپنے گمان میں اس قدر تجاوز کرجائے کہ اللہ کے نبیﷺ کے انتقال کے بعد چندصحابۂ کرام کو چھوڑ کر سب مرتد ہوگئے تھے، یا انکی اکثریت فاسق ہوگئی تھی، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ اس نے قرآن کے نصوص کو جھٹلایا، جو ان کی فضیلت میں کئی جگہ واردہیں، جیسے اللہ کا اُن سے راضی ہوجانا، اُن کی مدح و ثناء بیان کرنا،تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ خود کافر ہے۔ ابن تیمیہؒ نے آگے لکھا: کہ ایسے لوگوں کا یہ کفر دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لازما جانا جائے‘‘(الصارم المسلول: ۵۸۶)
امام ہیثمی ؒ کہتے ہیں: کہ علماء کا اختلاف بعض صحابہ کو گالی دینے کے سلسلے میں ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں؟ لیکن تمام صحابہؓ کو گالی دینے والایقیناًکافر ہے(الصواعق المحرقۃ: ۳۷۹)
مذکورہ دلائل کی توضیح کے ساتھ یہاں بعض علماء کے دوسرے تفصیلی دلائل بیان کئے جارہے ہیں: 
(۱) سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر پیچھے گزری ہے: اللہ کا قول: (محمد رسول اللہ والذین معہ ۔۔الی ۔۔لیغیظ بہم الکفار) امام مالک ؒ نے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جو صحابہؓ سے بغض رکھے وہ کافر ہے ، ایسے لوگوں سے صحابہؓ خود بغض رکھتے تھے، اور صحابہؓ جس سے نفرت کریں ، وہ کافر ہے، امام شافعی اور دوسرے علماء کا بھی یہی موقف ہے(الصواعق المحرقۃ،ص: ۳۱۷)
(۲) بخاری و مسلم کے حوالے سے أنسؓ کی روایت پیچھے گزری ہے جس میں اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور اُن سے بغض نفاق کی علامت ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لایبغض الأنصار رجل آمن باللہ والیوم الآخر (مسلم: ۱؍۸۶) اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ تو جو لوگ انہیں گالی دیتے ہیں ، اُن کا منافق ہونا واجب ہوگیا، جن کا ایمان نہ تو اللہ پر ہے اور نہ ہی آخرت کے دن پر(الصارم المسلول،ص: ۵۸۱)
(۳)امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبے ایک شخص کو دُرّے لگائے جس نے اُن کو ابو بکرؓ پر فوقیت دی تھی،اور پھر عمرؓ نے فرمایا تھا: ’’ابو بکرؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں، فلاں فلاں چیزوں میں۔۔۔‘‘ پھر کہا:جو اس کے خلاف کہے گا،اُس پر ہم حد نافذ کریں گے جیسا کہ اُس جھوٹے کو دُرّے لگائے گئے‘‘(فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۳۰۰)
اسی طرح امیر المومنین علیؓ بن ابی طالبؓ نے فرمایا: ’’مجھ کو کوئی بھی ابو بکرؓ وعمرؓ پر فضیلت نہ دے ، ورنہ میں اُس پر افتراء پردازی کی حد نافذ کروں گا‘‘ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۸۳)
جب دو خلیفۂ راشد عمرؓ و علیؓ اُن لوگوں پر افتراء پردازی کی حد نافذ کرنے کا عزم کرتے ہیں جوعلیؓ کو ابوبکرؓ و عمرؓ پر ترجیح دیتے ہیں یا جو عمرؓ کو ابو بکرؓ پر فوقیت دیتے ہیں۔ حا لانکہ محض افضلیت کو اوپر نیچے کرنے میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ ہی گالی۔ تو اندازہ لگائیں کہ گالی کی سزا ان دونوں کے نزدیک کتنی بھاری رہی ہوگی ۔(الصارم المسلول،ص:۵۸۶)
دوم: جس نے بعض صحابہؓ کو گالی دی جس سے دین میں طعن و تشنیع لازم آتی ہے:
جیسے اُن پر کفر اور فسق کی تہمت لگائے، اوروہ صحابہؓ میں ایسے لوگ ہوں جن کے فضل میں متواتر روایتیں وارد ہیں، جیسے خلفائے راشدین۔ تو ان کو طعن و تشنیع کرنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے متواتر کو جھٹلایاہے۔
ابو محمد بن ابو یزید روایت کرتے ہیں کہ سحنونؒ نے فرمایا: ’’جس نے ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے یہ کہا: کہ وہ لوگ گمراہی اور کفر کی راہ پر تھے ، وہ واجب القتل ہے، ان کے علاوہ اگر دوسرے صحابہؓ کو بھی گالی دی گئی تو اُسے سخت سزا دی جائے گی‘‘(الشفاء للقاضی عیاض ۲؍۱۱۰۹)
ہشام بن عمار کہتے ہیں: ’’ میں نے امام مالک ؒ کو یہ کہتے ہوئے سناجو ابو بکرؓ و عمرؓ کو گالی دے اُسے قتل کردیا جائے گا، جو ام المؤمنین عائشہؓ کو گالی دے ، وہ بھی واجب القتل ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:( ےَعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ، أبدا ان کنتم مؤمنین)(النور:۱۷)اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا، اگر تم سچے مؤمن ہو۔تو جس نے عائشہؓ کو متہم کیا، اُس نے قرآن کی خلاف ورزی کی، اور قرآن کی خلاف ورزی کرنے والا قتل کردیا جائے گا(الصواعق المحرقۃ، ص:۳۸۴)۔
امام مالک ؒ کا دوسرا قول: ’’جس نے ابو بکرؓ کو گالی دی اُسے کوڑے لگائے جائیں گے، اور جس نے عائشہؓ کو گالی دی اُسے قتل کردیا جائے گا، اُن سے پوچھا گیا: ایسا کیوں؟ تو انہوں نے کہا: جس نے ان پر تہمت تراشی کی، گویا اُس نے قرآن کا انکار کیا‘‘ظاہر میں (واللہ أعلم) امام مالک ؒ کا مقصد یہاں ابو بکرؓ کو گالی دینے سے آدمی کافر نہیں ہوگا، جب کہ عائشہؓ کو گالی دینے والا کافر ہے،یہاں مخصوص گالی(تہمت تراشی) دینے والے کو کافر کہا گیا ہے ، دوسرے اقسام کی گالیاں اس حکم میں داخل نہیں ہیں، حالانکہ پہلی روایت میں امام مالکؒ سے ثابت ہے کہ ابو بکرؓ کی تکفیر کرنے والا واجب القتل ہے(الشفاء: ۲؍۱۱۰۹)۔
امام ہیثمیؒ حضرت ابو بکرؓ کو گالی دینے کاحکم بیان کرتے ہیں:خلاصۂ کلام یہ ہے کہ احناف کے نزدیک أبو بکرؓ کو گالی دینے والا کافر ہے، شافعیوں کامسلک بھی یہی ہے، البتہ مالکیوں کے نزدیک مشہور مسلک یہی ہے کہ وہ کافر نہیں ہے بل کہ اُسے کوڑے مارے جائیں گے، دوسری جگہ پر امام مالک ؒ خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں،تو ان کے نزدیک مسئلہ کی دو شکلیں بنتی ہیں: اگر تکفیر کے خاطر خواہ اسباب نہیں پائے جاتے ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کرتے، ورنہ اُسے کافر قرار دیتے ہیں(الصواعق: ۳۸۶) امام ہیثمی دوسری جگہ لکھتے ہیں: جو لوگ ابو بکرؓ اور ان کے ہمراہی کوکافر قرار دیتے ہیں،جن کے لئے نبیﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے ،اس سلسلے میں امام شافعیؒ کے اصحاب خاموش ہیں، لیکن میرا نظریہ ہے کہ وہ صریح کفر ہے(الصواعق: ۳۸۵) ۔
خرشی ؒ کہتے ہیں: جس نے حضرت عائشہؓ پر ایسی تہمت لگائی، جس سے اللہ نے ان کی برأت فرمائی ہے ، یا جو لوگ ابوبکرؓ کی صحابیت ،یا عشرۂ مبشرہ کے اسلام، یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ میں سے کسی تکفیرکرے تو وہ کافر ہے(الخرشی علیٰ مختصر خلیل:۸؍۷۴)
خطیب بغدادی کہتے ہیں: کہ علماء لکھتے ہیں:وہ شخص کافر ہے جو عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کی تکفیر کرے، اسی طرح نبیﷺ کی تمام ازواج مطہرات کا احترام اور ان سے محبت واجب ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کی بھی تکفیر کرے، اُسے کافر قرار دیا جائیگا(الفرق بین الفرق،ص: ۳۶۰)
اس مسئلہ میں اختلاف مشہور ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ وہ کافر ہے جو انہیں گالی دے یا ان کی تکفیر کرے۔جو لوگ کفر کے قائل نہیں ہیں، اُن کا اتفاق ہے کہ وہ فاسق ، اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔صحابی کے مقام و مرتبہ اور گالی کی نوعیت دیکھ کر ایسے لوگوں کو سزا دینی چاہئے۔مزید ملاحظہ فرمائیں: ہیثمیؒ کہتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ جو صحابہ کو فاسق قرار دے وہ کافر نہیں ہے۔(الصواعق المحرقۃ: ۳۸۳)۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: ’’ ابراہیم نخعیؒ نے کہا: کہ ابوبکرؓ و عمرؓکو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح ابو اسحاق سُبیعی سے منقول ہے: ابوبکرؓ و عمرؓکو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں اس لئے شمار ہے کیونکہ اللہ نے اُن کے بارے میں فرمایا: (ان تجتنبوا کبآئر ما تُنہونَ عنہُ)(النساء:۳۱)اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے۔
اگر صحابہؓ کو گالی دینے کی یہی شکل ہے تو گالی دینے والے کو تادیبا سزا دی جائے گی، کیونکہ سزا ہر اس معصیت پر دی جا سکتی ہے جس پر حد اور کفارہ ثابت نہیں ہے، اور اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان (صحابہؓ، تابعین، اہل سنت والجماعت)کوئی اختلاف نہیں ، بل کہ سب کا اس بات پر اجماع ہے: کہ صحابہؓ کی مدح و ثناء ، اُن کے لئے استغفار اور رحمت طلبی واجب ہے، اور اُن کے متعلق گالی گلوچ کرنے والے کو سزا دی جائے گی(اللآلکائی: ۸؍۱۲۶۲)
قاضی عیاضؒ کہتے ہیں: ’’ صحابہؓ میں کسی کو بھی گالی دینا گناہ کبیرہ ہے، گالی دینے والے کو قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دی جائیں گی، یہی میرا اور جمہور علماء کا مسلک ہے‘‘(مسلم بشرح النووی۱۶؍۹۳)
عبد الملک بن حبیبؒ کہتے ہیں: ’’کوئی غالی شیعہ عثمانؓ سے بغض اور برأت کا اظہار کرے، اُسے سخت سزادی جائے گی، اور وہ اگر ابوبکرؓ و عمرؓ سے نفرت و عداوت کا اظہار کرے تو اُس پر سزا بڑھادی جائے گی، اُس کی پٹائی ڈبل کی جا ئے گی، اور اُسے تا حیات جیل میں رکھا جائے گا(الشفاء:۲؍۱۱۰۸)
ابو بکرؓ کو گالی دینے والے کو محض کوڑے مارنے پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا، کوڑا صرف رفاقت نبیﷺکے انکار یا سب و شتم پرلگایا جائے گا، اگر کوئی انکی دینی حمیت و نصرت، خلافت اور ان کی فتوحات کو مطعون کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کی ملعون جرأت پر علٰحدہ سزا دی جائے گی (الصواعق المحرقۃ: ص۳۸۷)۔ اور حاکم وقت ان سزاؤں کو ہر حال میں نافذ کرے گا۔
امام أحمد ؒ کہتے ہیں: کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ صحابہؓ کی معمولی بھی بُرائی کرے یا اُن کے عیب و نقص ڈھونڈے اور نشتر چلائے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سلطان(حاکم) پر واجب ہے کہ اُسے سخت سزا دے، اسے معاف نہیں کیا جاسکتا، سماعت کے دوران اگر توبہ کرلے تو اُسے چھوڑ دیا جائے گا، پھر وہی غلطی کرے تو اُسے حبس دوام کی سزا دی جائے گی،یہاں تک اُس کی موت ہوجائے یا پھر اپنی غلطی سے تائب ہوکر رجوع کرلے(طبقات الحنابلہ ۱؍۲۴)
میرے مسلمان بھائی! آپ امام احمد ؒ کے اس قول پر غور کریں کہ کسی ایک صحابی پر طعن یا عیب لگاناکس قدر سزا کا موجب ہے ، اور صحابہؓ کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور گالی دینے والے کا حکم یہ ہے کہ وہ کفر کی جہت سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب ؒ سبِّ صحابہؓ کا حکم بیان کرتے ہیں: جس نے خصوصیت کے ساتھ بعض صحابہ کو گالی دی جن کے فضل و کمال کے متعلق متواتر روایتیں موجود ہیں جیسے خلفاء راشدین۔ تو جو اُنہیں گالی دینے کو جائز سمجھے،اُس نے کفر کیا، اللہ کے نبیﷺ کے ارشادات کو جھٹلانے کے نتیجے میں۔ اور سنت کی تکذیب کرنے والا کافر ہے۔ اور جس نے یونہی گالی دی تو اُس نے فسق کا ارتکاب کیا، اس لئے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ شیخین(ابو بکرؓ و عمرؓ) کو مطلقا گالی دینے والا بھی کافر ہے۔واللہ أعلم(الرد علی الرافضۃ:ص:۱۹) 
امام أحمد ؒ کے قول پر قاضی أبو یعلیٰ تعلیقا لکھتے ہیں: جب اُن سے صحابہ کو گالی دینے کا حکم پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا ’’ما أراہ علی الاسلام‘‘ کہ میں ایسے شخص کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں احتمال اس بات کا ہے کہ جب وہ گالی دینے کو حلال جانے، ایسی صورت میں وہ بلا اختلاف کافر ہے، اور ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا جو اس بات کا عقیدہ رکھے کہ اُنہیں گالی دینا حرام ہے ، لیکن منہ سے اُ ن کے لئے گالی نکل گئی ۔ یہ اُسی طرح ہے جیسے آدمی کوئی گناہ کا کام کرتا ہے۔(الصارم المسلول،ص: ۵۷۱) 
خلاصۂ کلام یہ کہ ایسی گالی اور طعن جو صحابہ کے دین اور عدالت کو مجروح کرے، جن کی فضیلت میں متواتر نصوص وارد ہیں، ان کو گالی دینے والا ‘راجح قول کے مطابق کافر ہے، اس لئے کہ اس نے امر متواتر کو جھٹلایا ہے، اور جن علماء نے کفر کا حکم نہیں لگایا ہے ، اُن کا اجماع ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ ہے ،تادیب و سزا کا حقدار ہے، امام وقت کو حق نہیں کہ اُسے معاف کردے، بلکہ اُس کی سزا میں صحابی کے رتبے کو دیکھتے ہوئے اضافہ بھی کیا جائے گا۔اور وہ کافر اُس وقت ہوگا جب انہیں گالی دینے کو حلال جانے۔اور جو سبِّ صحابہؓ کو عین ایمان سمجھے، اللہ کی عبادت تصور کرے، اس کو کافر قرار دینے میں علماء متفق ہیں، اور اس سلسلے میں علماء کے واضح اقوال و دلائل پیچھے گزر چکے ہیں۔اس نوع کی تفصیل بیان کرنے کے بعد ان شاء اللہ آگے کے موضوعات بہت آسانی سے واضح ہوجائیں گے۔ 
سوم: اُن صحابہؓ کو گالی دینے کا حکم جن کی فضیلت میں متواتر نص وارد نہیں، مگر اُن کے دین میں طعن کا سبب بنتا ہے:
ہم نے پچھلے سطور میں یہ واضح کردیا ہے کہ متواتردینی فضیلت کے حاملین صحابہؓ کو گالی دینے والا کافر ہے ، اور جن کے بارے میں متواتر نص وارد نہیں ہیں ، جمہور علماء ان کو کافر قرار نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی صحابیت کو طعن و تشنیع کرے تو وہ کافر ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب ؒ کہتے ہیں:’’ جن کے فضل وکمال کے بارے میں متواتر نصوص وارد نہیں ہیں اُن کو گالی دینے والا فاسق ہے ، لیکن اگر رسول اللہﷺ کے ساتھی ہونے کی حیثیت سے گالی دے ، تو وہ کافر ہے‘‘(الرد علیٰ الرافضہ: ۱۹)
چہارم: صحابہؓ کو ایسی گالی دینے کا حکم جو اُن کے دین اور عدالت وثقاہت کومطعون نہ کرے: 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا شخص تادیب و سزا کا مستحق ہے ، لیکن میرے مطالعہ کے دوران میں نے کسی بھی عالم کو نہیں پایا جو اس طرح کی گالی دینے والوں کو کافر کہیں،اور اُن علماء کے نزدیک کبار و صغار صحابہؓ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’صحابہؓ کو ایسی گالی دینا جس سے اُن کی عدالت وثقاہت اور دین پر کوئی آنچ نہیں آتی،جیسے: کسی کو بخیل، بزدل، کم علم، کھلنڈرا وغیرہ صفات سے متصف کرنا ، تو ایسے شخص کو سزا دی جائے گی، اور ہم اُس پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے، اور علماء نے جن گالی دینے والوں کی تکفیر نہیں کی ہے، وہ اسی قسم سے متعلق ہے‘‘(الصارم المسلول:۵۸۶) ابو یعلیٰ نے اتہام کی ایک مثال یہ بھی دی ہے، کہ ان میں سے کسی پر سیاسی بصیرت کی کمی کا الزام لگائے(الصارم المسلول:۵۷۱) 
اس جیسی اور مثالیں جیسے: کمزور رائے، کمزور شخصیت ، غافل، صاحب دنیا وغیرہ کہنا بھی گالی ہی ہے۔ اس قسم کا طعن اور اس طرح کی گالی تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں، بعض معاصر اسٹڈیز(اہل سنت سے منسوب)منہج علمی و موضوعی کے نام پر یہ حرکتیں کر بیٹھے ہیں، اور اس طرح کی تحقیقات پر مستشرقین کا اثر غالب ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں